داستان گوئی ایک ایسی صنف ہے جسے نوابوں، بادشاہوں کے دربار میں پذیرائی حاصل ہوئی اور وہیں پلی بڑھی، بادشاہ اور امرا اپنے تھکے ہو ئے ذہن کو آرام دینے کے لیے قصے کہانیاں سنتے تھے۔
کہانی اور قصے سنانے والے اپنے فن میں ماہر ہوتے تھے جنہیں داستان گو کہا جاتا تھا۔
بادشاہت اور نوابیت کیا گئی اس فن کی پذیرائی بھی ختم ہو گئی ۔
گردش زمانے کے ساتھ آج یہ فن ناپید ہوتا جا رہاہے۔
ایسے وقت میں بھوپال میں داستان گوئی کو پھر سے زندہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ریا ست مدھیہ پردیش کے تہذیبی شہر بھوپال کے بھارت بھون میں محفل داستاں گوئی کا انعقاد کیا گیا، جس میں ملک کے معروف ادبا اور فنکاروں نے حصہ لیا۔
ہندی کے معروف ادیب شری لال شکل کے ناول 'راگ درباری' کو داستان گوئی کے شکل میں پیش کیا گیا۔
پروگرام کے منتظم راہل گپتا نے ای ٹی وی بھارت سے بات کر تے ہوئے کہا کہ اردو میں داستان گوئی، قصہ گوئی کی روایت کافی پرانی ہے جو آج ہمارے سماج سے ختم ہوتی جا رہی ہے۔
انھوں نے کہا آج راگ درباری کو اردو کے انداز میں پیش کر کے مجھے بہت خوشی ہوئی۔
اس ناول پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نےکہا کہ یہ ناول سماج کے ہر پہلو کو ظاہر کر تا ہے۔
داستان گوئی ایک ایسا آرٹ ہے جو نوابوں، بادشاہوں کے دربار میں ان کا دل بہلانے کے لیے پیش کیا جاتا تھا۔
بھوپال میں داستان گوئی پروگرام کا انعقاد یہ بتا تا ہے کہ ابھی بھی اس فن کے چاہنے والے موجود ہیں اور امید کی جاتی ہے کہ اس فن کو ایک بار پھر عروج حاصل ہوگا۔