بھوپال: مجاہد آزادی مولانا برکت اللہ بھوپالی کی برسی کے موقع پر مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال میں ایک تقریب منعقد ہوئی جس میں مولانا مرحوم کی قربانیوں کو یاد کیا گیا، نیز قران خوانی اور ایصال ثواب کے لیے دعائیں کر کے مولانا برکت اللہ بھوپالی کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ ملک میں آزادی کا امرت مہوتسو منایا جا رہا ہے لیکن آزادی کی تحریک کے نام پر اب بھی چند ہی مجاہدین آزادی کی خدمات کو یاد کرکے اپنا فرض پورا کرلیا جاتا ہے۔ تحریک آزادی میں شریک افراد اور ملک کو آزاد کرانے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہے جن کی قربانیاں منظر عام پر نہیں آسکی ہیں۔ Muslim Freedom Fighters of India
مولانا برکت اللہ بھوپالی کا نام بھی انہی مجاہدین آزادی میں آتا ہے جن کی قربانیوں کو فراموش کر دیا گیا۔ مولانا برکت اللہ بھوپالی نے ملک کی آزادی کے لئے رائے عامہ کو ہموار کرنے کا کام صرف بھارت میں ہی نہیں بلکہ بیرون ملک میں بھی کیا تھا۔ انہوں نے کابل میں حکومت برطانیہ کے خلاف پہلی عبوری جلاوطن حکومت قائم کی تھی۔ مولانا برکت اللہ بھوپالی اس عبوری جلا وطن حکومت کے وزیراعظم اور راجہ مہیندر پرتاپ سنگھ اس کے صدر تھے۔
برکت اللہ بھوپالی اردو صحافی اور منفرد لب و لجہہ کے شاعر بھی تھے لیکن نئی نسل آج کی خدمات سے واقف نہیں ہے۔ مولانا برکت اللہ بھوپالی ایجوکیشنل اینڈ سوشل سروس کے زیر اہتمام بھوپال گاندھی نگر میں منعقدہ جلسہ میں دانشوروں نے حکومت سے پروفیسر مولانا برکت اللہ بھوپالی کی حیات و خدمات کو نصاب کا حصہ بنانے کا مطالبہ کیا۔
مولانا برکت اللہ بھوپالی ایجوکیشنل اینڈ سوشل سروس کے صدر حاجی محمد ہارون نے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 'مولانا برکت اللہ بھوپالی نے اس ملک کی آزادی کے لئے عظیم قربانیاں پیش کی ہیں لیکن افسوس کہ آج اتنے عظیم مجاہد آزادی کی قربانیوں کو فراموش کردیا گیا ہے اور حکومتی سطح پر انہیں یاد کرنے کے لئے کسی پروگرام کا انعقاد نہیں کیا جاتا۔
حاجی محمد ہارون نے حکومت ہند اور مدھیہ پردیش حکومت سے برکت اللہ بھوپالی کی خدمات کو نصاب کا حصہ بنانے کا مطالبہ کیا۔ حاجی ہارون نے برکت اللہ بھوپالی کے نام سے سینٹرل یونیورسٹی قائم کرنے اور بھوپال کے مدرسہ سلیمانیہ جہاں سے برکت اللہ بھوپالی نے تعلیم حاصل کی تھی وہاں پر ان کے نام کا بورڈ لگانے کا بھی مطالبہ کیا۔
ممتاز صحافی شیلندر شیلی نے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 'جب ملک کے مایہ ناز مجاہدین آزادی کی بات کی جاتی ہے اور میں مولانا برکت اللہ بھوپالی کی خدمات کو پیش کیا جاتا ہے تو اہل بھوپال کا سینہ فخر سے اونچا ہوجاتا ہے لیکن ہمیں افسوس ہے کہ بھوپال میں برکت اللہ یونیورسٹی کے قائم ہونے کے بعد بھی ان کے نام اور کام پر اب تک کوئی ریسرچ نہیں کی گئی۔ ہم حکومت سے ان کے عظیم کارناموں کو نصاب کا حصہ بنانے اور ان کے نام سے ایک ریسرچ سینٹر بنانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔