ETV Bharat / state

Ladakh Industrial Land Allotment Policy 2023: لداخ، نئی صنعتی پالیسی پر عوام و خواص میں تشویش

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Nov 9, 2023, 3:46 PM IST

سابق ریاست جموں و کشمیر سے علیحدہ کئے جانے کے بعد لداخ ایل جی انتظامیہ نے یونین ٹیریٹری لداخ کے لیے ایک نئ صنعتی پالیسی مرتب کی ہے جس میں بیرون یو ٹی سرمایہ کاروں، اداروں کے لیے راہ ہموار کی گئی ہے، تاہم اس پالیسی پر کئی خدشات ظاہر کیے گئے ہیں۔ ای ٹی وی بھارت کے نمائندے محمد ذوالقرنین زلفی کی رپورٹ

ا
ا
لداخ، نئی صنعتی پالیسی پر عوام و خواص میں تشویش

سرینگر (جموں و کشمیر): مرکز کے زیر انتظام خطہ لداخ کے لیفٹیننٹ گورنر بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) ڈاکٹر بی ڈی مشرا کی زیر قیادت یو ٹی انتظامیہ کی نئی صنعتی پالیسی نے خطے کے مختلف گروپس اور تنظیموں کے نمائندوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ ان رہنماؤں، نمائندوں کا استدلال ہے کہ ’’یہ (نئی پالیسی) مقامی اسٹیک ہولڈرز کو خاطر میں لائے بغیر ہی وضع کی گئی ہے اور اس معاہدے سے خطے کے نازک ماحولیات کو مزید خطرہ لاحق ہو گا۔‘‘

  • It's important for industrial policies to consider the interests and well-being of the ladakh. UT govt should have to involve all relevant stakeholders in the decision-making process to ensure a more balanced and equitable approach to industrial development in Ladakh.

    — Mukhtar Hussain | مختار حسین (@Mukhtar_huss) November 7, 2023 " class="align-text-top noRightClick twitterSection" data=" ">

لداخ کو علیحدہ یونین ٹیریٹری بنائے جانے کے بعد، لداخ انڈسٹریل لینڈ الاٹمنٹ پالیسی – 2023 اپنی نوعیت کی پہلی پالیسی ہے۔ مرکز کے زیر انتظام علاقے کی تشکیل سےقبل یہ علاقہ سابق ریاست جموں و کشمیر کی صنعتی پالیسی پر عمل پیرا تھا۔ جدید پالیسی پر لداخ انتظامیہ کے پالیسی ڈرافٹ سے دو منتخب اداروں - پہاڑی ترقیاتی کونسلز، لیہہ اور کرگل کو سائیڈ لائن کرنے پر اعتراضات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ اس پالیسی کو حال ہی میں منظر عام پر لایا گیا تھا۔ اسٹیک ہولڈرز کا خیال ہے کہ اس تجویز سے علاقے میں بڑی کمپنیز کو قائم کیا جائے گا، جس سے لوگوں اور علاقہ (لداخ) دونوں کو خطرہ لاحق ہو گا۔

  • The New Industrial Policy poses a significant risk to the delicate environment of #Ladakh and threatens the indigenous cultural identity of the region.

    The introduction of this draft without the consent of the people of Ladakh is undemocratic and deeply concerning. Moreover,… pic.twitter.com/7N5esPiSdH

    — Sajjad Kargili | سجاد کرگلی (@SajjadKargili_) November 6, 2023 " class="align-text-top noRightClick twitterSection" data=" ">

ایپکس باڈی، لیہہ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق، اتوار کو ایک میٹنگ کے دوران اس تجویز پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ یہ گروپ سماجی، مذہبی اور سیاسی گروپس کا ایک اتحاد ہے جو دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد یونین ٹیریٹری کے چھٹے شیڈول کی حمایت کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ باڈی نے کہا کہ اس کے ممبران تنظیم کے چار نکاتی ایجنڈے کے بارے میں آگاہی پھیلانے کے لیے خطے کے مختلف علاقوں کا دورہ جاری رکھیں گے جس میں لداخ کے لیے چھٹے شیڈول کی آئینی ضمانت بھی شامل ہے۔’’یہ مہم عوامی تحریک کا ایک جزء ہے جس میں لداخ کو ایک مکمل ریاست بننے اور اس خطے کی نمائندگی اور جمہوری عمل میں شمولیت کو بڑھانے کے لیے لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں مزید نشستوں کے لیے کہا گیا ہے۔‘‘

مزید پڑھیں: صنعت و حرفت کے پرنسپل سیکرٹری رنجن پرکاش ٹھاکر سے خصوصی گفتگو

اس دوران مقامی نمائندوں نے بھی سوشل میڈیا پر لداخ انڈسٹریل لینڈ الاٹمنٹ پالیسی 2023 پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔یوتھ کانگریس پارٹی کے لیڈر مختار حسین نے کہا: ’’صنعتی پالیسیوں کے لیے لداخ کے مفادات اور بہبود پر غور کرنا ضروری ہے۔ لداخ میں صنعتی ترقی کے لیے زیادہ متوازن اور مساوی نقطہ نظر کو یقینی بنانے کے لیے یونین ٹیریٹری حکومت کو فیصلہ سازی کے عمل میں تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کو شامل کرنا چاہیے۔‘‘

اسی طرح کے خدشات کی بازگشت کرتے ہوئے، لداخ کے ایک ممتاز سیاست دان سجاد کرگلی نے کہا: ’’نئی صنعتی پالیسی لداخ کے نازک ماحول کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے اور اس سے خطے کی مقامی ثقافتی شناخت کو خطرہ لاحق ہے۔‘‘

کرگل ڈیموکریٹک الائنس (کے ڈی اے) کے رکن کرگلی نے مزید کہا: ’’لداخ کے لوگوں کی رضامندی کے بغیر اس ڈرافٹ کو متعارف کرانا غیر جمہوری اور تشویشناک عمل ہے۔ لداخ کے لوگوں کی مسلسل بے اختیاری کی نشاندہی کرتا ہے۔‘‘دونوں کونسلز کو پالیسی کے خلاف متحد ہونے پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا: ’’یہ نئے ضوابط براہ راست لداخ خودمختار پہاڑی ترقیاتی کونسلز کے اختیار اور کردار کو نقصان پہنچاتے ہیں، جو ان کے ادارے پر شدید حملہ کرتے ہیں۔ یہ کرگل اور لیہہ دونوں کونسلز کے لیے ضروری ہے۔ متحد ہونا اور اس پالیسی کے خلاف کھڑا ہونا، جو کہ واضح طور پر مقامی آبادی کے مفادات کے خلاف ہے۔‘‘

لداخ، نئی صنعتی پالیسی پر عوام و خواص میں تشویش

سرینگر (جموں و کشمیر): مرکز کے زیر انتظام خطہ لداخ کے لیفٹیننٹ گورنر بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) ڈاکٹر بی ڈی مشرا کی زیر قیادت یو ٹی انتظامیہ کی نئی صنعتی پالیسی نے خطے کے مختلف گروپس اور تنظیموں کے نمائندوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ ان رہنماؤں، نمائندوں کا استدلال ہے کہ ’’یہ (نئی پالیسی) مقامی اسٹیک ہولڈرز کو خاطر میں لائے بغیر ہی وضع کی گئی ہے اور اس معاہدے سے خطے کے نازک ماحولیات کو مزید خطرہ لاحق ہو گا۔‘‘

  • It's important for industrial policies to consider the interests and well-being of the ladakh. UT govt should have to involve all relevant stakeholders in the decision-making process to ensure a more balanced and equitable approach to industrial development in Ladakh.

    — Mukhtar Hussain | مختار حسین (@Mukhtar_huss) November 7, 2023 " class="align-text-top noRightClick twitterSection" data=" ">

لداخ کو علیحدہ یونین ٹیریٹری بنائے جانے کے بعد، لداخ انڈسٹریل لینڈ الاٹمنٹ پالیسی – 2023 اپنی نوعیت کی پہلی پالیسی ہے۔ مرکز کے زیر انتظام علاقے کی تشکیل سےقبل یہ علاقہ سابق ریاست جموں و کشمیر کی صنعتی پالیسی پر عمل پیرا تھا۔ جدید پالیسی پر لداخ انتظامیہ کے پالیسی ڈرافٹ سے دو منتخب اداروں - پہاڑی ترقیاتی کونسلز، لیہہ اور کرگل کو سائیڈ لائن کرنے پر اعتراضات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ اس پالیسی کو حال ہی میں منظر عام پر لایا گیا تھا۔ اسٹیک ہولڈرز کا خیال ہے کہ اس تجویز سے علاقے میں بڑی کمپنیز کو قائم کیا جائے گا، جس سے لوگوں اور علاقہ (لداخ) دونوں کو خطرہ لاحق ہو گا۔

  • The New Industrial Policy poses a significant risk to the delicate environment of #Ladakh and threatens the indigenous cultural identity of the region.

    The introduction of this draft without the consent of the people of Ladakh is undemocratic and deeply concerning. Moreover,… pic.twitter.com/7N5esPiSdH

    — Sajjad Kargili | سجاد کرگلی (@SajjadKargili_) November 6, 2023 " class="align-text-top noRightClick twitterSection" data=" ">

ایپکس باڈی، لیہہ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق، اتوار کو ایک میٹنگ کے دوران اس تجویز پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ یہ گروپ سماجی، مذہبی اور سیاسی گروپس کا ایک اتحاد ہے جو دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد یونین ٹیریٹری کے چھٹے شیڈول کی حمایت کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ باڈی نے کہا کہ اس کے ممبران تنظیم کے چار نکاتی ایجنڈے کے بارے میں آگاہی پھیلانے کے لیے خطے کے مختلف علاقوں کا دورہ جاری رکھیں گے جس میں لداخ کے لیے چھٹے شیڈول کی آئینی ضمانت بھی شامل ہے۔’’یہ مہم عوامی تحریک کا ایک جزء ہے جس میں لداخ کو ایک مکمل ریاست بننے اور اس خطے کی نمائندگی اور جمہوری عمل میں شمولیت کو بڑھانے کے لیے لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں مزید نشستوں کے لیے کہا گیا ہے۔‘‘

مزید پڑھیں: صنعت و حرفت کے پرنسپل سیکرٹری رنجن پرکاش ٹھاکر سے خصوصی گفتگو

اس دوران مقامی نمائندوں نے بھی سوشل میڈیا پر لداخ انڈسٹریل لینڈ الاٹمنٹ پالیسی 2023 پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔یوتھ کانگریس پارٹی کے لیڈر مختار حسین نے کہا: ’’صنعتی پالیسیوں کے لیے لداخ کے مفادات اور بہبود پر غور کرنا ضروری ہے۔ لداخ میں صنعتی ترقی کے لیے زیادہ متوازن اور مساوی نقطہ نظر کو یقینی بنانے کے لیے یونین ٹیریٹری حکومت کو فیصلہ سازی کے عمل میں تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کو شامل کرنا چاہیے۔‘‘

اسی طرح کے خدشات کی بازگشت کرتے ہوئے، لداخ کے ایک ممتاز سیاست دان سجاد کرگلی نے کہا: ’’نئی صنعتی پالیسی لداخ کے نازک ماحول کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے اور اس سے خطے کی مقامی ثقافتی شناخت کو خطرہ لاحق ہے۔‘‘

کرگل ڈیموکریٹک الائنس (کے ڈی اے) کے رکن کرگلی نے مزید کہا: ’’لداخ کے لوگوں کی رضامندی کے بغیر اس ڈرافٹ کو متعارف کرانا غیر جمہوری اور تشویشناک عمل ہے۔ لداخ کے لوگوں کی مسلسل بے اختیاری کی نشاندہی کرتا ہے۔‘‘دونوں کونسلز کو پالیسی کے خلاف متحد ہونے پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا: ’’یہ نئے ضوابط براہ راست لداخ خودمختار پہاڑی ترقیاتی کونسلز کے اختیار اور کردار کو نقصان پہنچاتے ہیں، جو ان کے ادارے پر شدید حملہ کرتے ہیں۔ یہ کرگل اور لیہہ دونوں کونسلز کے لیے ضروری ہے۔ متحد ہونا اور اس پالیسی کے خلاف کھڑا ہونا، جو کہ واضح طور پر مقامی آبادی کے مفادات کے خلاف ہے۔‘‘

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.