بائز مڈل اسکول، کچری کا مشاہدہ کرنے کے بعد تعلیمی نظام کے ڈھانچے کو مضبوط اور مستحکم کرنے کے مرکزی اور ریاستی سرکار کے بلند و بانگ دعوے ثراب ثابت ہوتے دکھائے دیتے ہیں۔
اسکول کی عمارت محض خستہ حال تین کمروں پر مشتمل ہے۔ جس میں آٹھویں درجے تک کی تعلیم دی جاتی ہے۔
جگہ کی قلت کے سبب ایک ہی کمرے میں دو دو کلاسز پڑھانے کے لئے اساتذہ مجبور ہیں۔
ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے اسکول کے ہیڈماسٹر نے کہا کہ ’’بارشوں کے دوران اور بھی دِقت اُس وقت پیش آتی ہے جب براندے میں سبق پڑھ رہے کلاسوں کو بھی انہی تین کمروں میں لایا جاتا ہے جہاں پہلے سے ہی ایک سے زیادہ درجے سبق پڑھ رہے ہوتے ہیں۔‘‘
اسکول کی حالت دیکھ کر بچوں کی تعلیم اور نفسیات پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں، ایک فارسی مقولے کے عین مطابق ہے: ’’عیاں، چہ بیاں‘‘۔
اسکول میں ایک استاد ریاضی مضمون کی مشق کراتا ہے تو دوسرے کونے میں ایک اور استاد طالب علموں کو تاریخ کے اسباق سے روشناس کرا رہا ہے۔ ایسے میں اس اسکول میں تعلیم کے سبب طالب علموں کا مستقبل تاریک ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔