اطلاع کے مطابق صائمہ اختر نام کی خاتون پولیس اہلکار پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے عسکریت پسندانہ عمل کو فروغ دینے اور دوران ڈیوٹی سکیورٹی فورسز کو روکنے کی کوشش کی ہے۔ دراصل اس خاتون کے گھر پر پولیس نے متعدد بار چھاپے ڈالے اور اہل خانہ کو ہراساں کیا، جس پر یہ خاتون، پولیس اہلکاروں سے مزاحمت کرنے لگی۔ پولیس کے ایک بیان کے مطابق خاتون اہلکار کو نوکری سے برطرف کیا گیا ہے۔
وہیں اس تعلق سے جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے اپنے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ 'کولگام سے تعلق رکھنے والی صائمہ اختر کے بار بار گھر کی بلاجواز تلاشی کرنے پر سوال پوچھے جانے پر یو اے پی اے کا اطلاق کیا گیا۔ صائمہ کی بیمار والدہ کی پریشانی میں اضافہ کو سمجھا جا سکتا ہے۔ جب ظلم کی بات آتی ہے تو یہاں تک کہ خواتین کو بھی 'نیا کشمیر' میں بخشا نہیں جاتا ہے۔'
ذرائع کے مطابق سیکورٹی فورسز کو کریوا محلہ فرصل کولگام میں عسکریت پسندوں کی موجودگی کی خبر موصول ہوئی تھی جس کے بعد فورسز نے علاقے کا محاصرہ کر کے تلاشی کارروائی شروع کی۔ اس دوران خاتون پولیس صائمہ اختر ساکنہ فرصل نے سکیورٹی فورسز کو اپنی ڈیوٹی انجام دینے سے روکنے کی کوشش کی، ساتھ ہی فورسز کے خلاف بیان بازی بھی کی۔ خاتون نے مزید ایک ویڈیو بنا کر اسے سوشل میڈیا پر عام کردیا۔
پولیس نے اس واقعہ پر سنجیدگی سے نوٹس لیتے ہوئے خاتون ایس پی او کو گرفتار کرنے کے علاوہ اسے نوکری سے برخاست کر دیا ہے، اس حوالے سے پولیس نے ایک ایف آئی آر بھی درج کرکے تحقیقات شروع کر دی ہے۔