لیکن جب ہم اس کیس کی پڑتال کرتے ہیں تو اس میں کئی حیران کن انکشافات سامنے آتے ہیں۔ آج سے ایک برس قبل پٹھان کوٹ کی عدالت میں اس کیس کی سماعت شروع ہوئی تھی۔
اس واقعے کی جہاں پورے ملک میں پر زور مذمت کی گئی، وہیں اسی بہانے سیاسی رہنماوں نے اپنی سیاسی روٹی سینکنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
ملک بھر میں جنسی زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے، حالیہ دنوں اترپردیش کے مختلف اضلاع میں کمسن بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے 3 واقعات سامنے آئے ہیں۔ مدھیہ پردیشن میں بھی گذشتہ کل دو معاملے سامنے آئے۔ زیادتی کے شکار ہونے والوں کے اہل خانہ نے انتظامیہ پر اس طرح کے واقعات پر قابو پانے میں پوری طرح ناکام رہنے کا الزام عائد کیا ہے۔
قابل غور ہے کہ 8 سالہ کم سن بچی جنسی زیادتی کے بعد اس دنیا سے رخصت ہوگئی، اس معاملے میں سات ملزمان میں سے 6 افراد کو قصور وار ٹھہرایا گیا ہے۔ اور ایک ملزم کو بری کردیا ہے۔
قابل غور ہے کہ اس سے قبل ڈسٹرکٹ و سیشن جج ڈاکٹر تجویندر سنگھ نے فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے 10 جون کو فیصلہ سنانے کا امکان ظاہر کیا تھا، جبکہ اس سے قبل روزانہ کی بنیادوں پر ایک برس تک اس کیس کی سماعت ہوئی۔
آٹھواں ملزم جو کہ نابالغ ہے، کے خلاف ٹرائل عنقریب جوینائل کورٹ میں شروع ہوسکتی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ کے احکامات کی بنیاد پر 31 مئی 2018ء کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں کیس کی آن کیمرہ اور روزانہ کی بنیاد پر سماعت شروع ہوئی تھی۔ اس دوران عدالت میں 275 سماعتیں ہوئیں اور 132 افراد عدالت میں بطور گواہ پیش ہوئے۔
استغاثہ کی طرف سے کیس کی پیروی سپیشل پبلک پراسیکیوٹر سنتوک سنگھ بسرا اور جگدیش کمار چوپڑا کر رہے ہیں جبکہ انہیں متعدد دیگر وکلاء بشمول کے کے پوری، ہربچن سنگھ اور مبین فاروقی (متاثرہ بچی کے والد محمد یوسف پجوال کے ذاتی وکیل) انہیں معاونت کررہے تھے۔
ملزمان کی طرف سے کیس کی پیروی اے کے ساونی، سوباش چندر شرما، ونود مہاجن اور انکر شرما نے کی۔ اس کیس کے ملزمان میں ریپ و قتل کی منصوبہ بندی کرنے والے سانجی رام، اس کا بیٹا وشال جنگوترا، سانجی رام کا بھتیجا (نابالغ ملزم)، نابالغ ملزم کا دوست پرویش کمار عرف منو، ایس پی او دیپک کھجوریہ، ایس پی او سریندر کمار، تحقیقاتی افسران تلک راج اور آنند دتہ شامل ہیں۔
دریں اثناء معاملے کی حساسیت کے پیش نظر پولیس انتظامیہ امن و قانون کی صورتحال بنائے رکھنے کیلئے پختہ اقدامات کئے ہیں۔
پولیس کے ایک سینیئر افسر کے مطابق یہ کیس بہت ہی حساس ہے جس کے پیش نظر پولیس کی طرف سے حتمی فیصلے پر نگاہ رکھی جارہی ہے۔
انہوں نے بتایاکہ امن و قانون کی صورتحال خراب ہونے کا اندیشہ ہے جس کے پیش نظر پولیس و دیگر ایجنسیوں کی خدمات لی گئیں ہیں۔