ETV Bharat / state

کٹھوعہ ریپ و قتل کیس: ملزمین کے وکلاء میں مایوسی - کٹھوعہ ریپ

کٹھوعہ جنسی زیادتی و قتل کیس کے ملزمین کے وکلاء کو شاید اس بات کی بھنک لگ گئی ہے کہ اس کیس کے تعلق سے 10 جون کو آنے والا فیصلہ متاثرہ بچی کے حق میں اور ملزمان کے خلاف ہی آنے والا ہے۔

kathua Rape case
author img

By

Published : Jun 4, 2019, 3:28 PM IST


جہاں ایک طرف یہ وکلاء ابھی بھی اس کیس میں سی بی آئی کے ذریعے تحقیقات کی مانگ کررہے ہیں وہیں اس کیس کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر اس کو فرقہ پرستی کے ساتھ جوڑنے کی سر توڑ کوششیں بھی شروع ہوگئی ہیں۔

ملزموں میں سے ایک ملزم کے وکیل اور 'اک جٹ جموں' نامی تنظیم کے چیئرمین ایڈوکیٹ انکر شرما اس وحشیانہ اور شرمناک کیس کو ایک سازش سے تعبیر کرکے ہندو فرقے کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کا ایک موثر آلہ قرار دیتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے: 'رسانہ کیس میں سی بی آئی انکوائری کی مانگ ایک جائز مانگ تھی، کچھ ایسے شواہد سامنے آئے تھے جس سے یہ ثابت ہوا کہ یہ کوئی عام قتل نہیں تھا، اس کے پیچھے ایک بہت بڑی سازش تھی جس میں محبوبہ مفتی اور دیگر لوگوں نے ماحول کو خراب کرنے میں اپنا اپنا رول ادا کیا، لیکن بدقسمتی سے اُس سازش کے جو الگ الگ پہلو تھے ان کی تحقیقات نہیں کی گئی'۔

ان کا دعویٰ ہے کہ کیس میں منصوبہ بند تحقیقات ہوئی اور اس میں ہندوئوں کو بین الاقوامی سطح پر بدنام کرنے کی سوچ کار فرما تھی۔

ایڈوکیٹ شرما اس کیس کو روشنی ایکٹ سے بھی جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کو اقلیتی فرقوں کے خلاف ایک سازش بھی قرار دیتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے: 'جموں کشمیر میں سٹیٹ اپریٹس اقلیت مخالف ہے، یہاں کے اقلیتوں فرقوں میں ہندو، سکھ، بودھ اور جین ہیں اور یہاں کی سرکاریں الگ الگ طریقوں سے انہیں نشانہ بناتی ہیں، نوکریوں میں امتیاز برتا جاتا ہے اور روشنی ایکٹ اور محبوبہ مفتی کا 14 فروری 2018ء کا حکم نامہ جس کے خلاف میں نے پریس کانفرنس کی اور اس کو عوام میں اجاگر کیا، بنایا جاتا ہے'۔

انکر شرما کا کہنا ہے کہ اس کیس کی خصوصی تحقیقاتی ٹیم نے کورٹ میں جو گواہ اور شواہد پیش کئے ہیں اس قدر ٹھوس نہیں ہیں کہ ملزموں کو سزا ملے، اس کیس میں میڈیا ٹرائل ہوا، سیاسی دخل اندازی بھی ہوئی اور اس کو عالمی سطح پر ہندوئوں کو بدنام کرنے کے لئے بھی استعمال کیا گیا'۔

ان کا کہنا ہے کہ اس کیس میں مبنی بر حق تحقیقات نہیں ہوئی بلکہ خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے میں بھی امتیاز برتا گیا۔

موصوف ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ اس کیس میں منصفانہ تحقیقات نہیں ہوئی، جہادیوں کی حامی عورت (محبوبہ مفتی) نے اپنے حساب کے مطابق خصوصی تحقیقاتی ٹیم بنائی جس نے بے بنیاد شواہد کو پیش کرنے کی کوشش کی لیکن ہماری لڑائی جاری رہے گی'۔

ایڈوکیٹ شرما کشمیر کے صحافیوں اور سیاست دانوں پر بھی اس کیس کو ہندوئوں کےخلاف استعمال کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہتے ہیں: 'اس کیس کو کشمیر کے صحافیوں اور سیاست دانوں نے بھی استعمال کیا جس کا مقصد ہندوئوں، ڈوگروں اور ملک کو بدنام کرنا تھا اور سوچ یہ تھی کہ جموں کی ڈیموگرافی کو تبدیل کیا جائے'۔

انہوں نے کہا کہ اس کیس کو استعمال کرنے کا مقصد یہ تھا کہ جموں کو اسلامئز کیا جائے اور یہاں کے لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کیا جائے۔

انکر شرما کا کہنا ہے کہ یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ دس تاریخ کو جج صاحب کیا فیصلہ سنائیں گے اور ہمیں امید ہے کہ اگر شواہد کا تنقیدی طور جائزہ لیا جائے گا تو ملزمان بری ہوں گے اور ہمیں یہ بھی امید ہے کہ سرکار اس کو سیاسی نظریے سے بھی دیکھے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر کیس میں کچھ اوپر نیچے ہوا تو ان کے لئے اپیل کا راستہ کھلا ہے۔

ملزمان کے ایک اور وکیل اے کے ساونی بھی کیس کی سی بی آئی سے تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔

انہوں نے گزشتہ ہفتے ایک انٹرویو میں کہا: 'بحیثیت ڈیفنس کونسل جو اعتماد ہوتا وہ ہمیں شروع سے ہی رہا کہ یہ بے قصور لوگ تھے، بہت اچھا ہوتا اگر سی بی آئی انکوائری ہوتی تو اصلی قصوروار پکڑے جاتے، یہ کیس سی بی آئی انکوائری کے لئے فٹ کیس تھا اور اس طرح دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ ہوتا اور اصلی مجرم سامنے آتے'۔

تاہم متاثرہ بچی کے والد محمد یوسف پجوال کے ذاتی وکیل (پرائیویٹ کونسل) مبین فاروقی جو سپیشل پبلک پراسیکیوٹرس سنتوک سنگھ بسرا اور جگ دیش کمار چوپڑا کو کیس میں اسسٹ کررہے ہیں، کا کہنا ہے کہ ملزمان کو سزائیں ملنا ایک سو ایک فیصد طے ہے۔

قابل ذکر ہے کہ ضلع کٹھوعہ کے تحصیل ہیرانگر کے رسانہ نامی گاﺅں کی رہنے والی آٹھ سالہ کمسن بچی جو کہ گجر بکروال طبقہ سے تعلق رکھتی تھی، کو 10 جنوری 2018ء کو اس وقت اغوا کیا گیا تھا جب وہ گھوڑوں کو چرانے کے لئے نزدیکی جنگل گئی ہوئی تھی۔ اس کی لاش 17 جنوری کو ہیرا نگر میں جھاڑیوں سے برآمد کی گئی تھی۔ کرائم برانچ پولیس نے مئی کے مہینے میں واقعہ کے سبھی 8 ملزمان کے خلاف چالان عدالت میں پیش کیا۔

کرائم برانچ نے اپنی تحقیقات میں کہا ہے کہ آٹھ سالہ بچی کو رسانہ اور اس سے ملحقہ گائوں کے کچھ افراد نے عصمت ریزی کے بعد قتل کیا۔ تحقیقات کے مطابق متاثرہ بچی کے اغوا، عصمت دری اور سفاکانہ قتل کا مقصد علاقہ میں رہائش پذیر چند گوجر بکروال کنبوں کو ڈرانا دھمکانا اور ہجرت پر مجبور کرانا تھا۔ تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ کمسن بچی کو اغوا کرنے کے بعد ایک مقامی مندر میں قید رکھا گیاتھا جہاں اسے نشہ آور ادویات کھلائی گئیں اور قتل کرنے سے پہلے اسے مسلسل درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔

سپریم کورٹ نے 7 مئی 2018ء کو کٹھوعہ کیس کی جانچ سی بی آئی سے کرانے سے انکار کرتے ہوئے کیس کی سماعت کٹھوعہ سے پٹھان کوٹ کی عدالت میں منتقل کرنے کی ہدایت دی تھی۔ اُس وقت کے چیف جسٹس جسٹس دیپک مشرا کی صدارت والی بینچ نے یہ حکم سنایا تھا۔ سپریم کورٹ کے حکم نامے کی روشنی میں پرنسپل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج کٹھوعہ سنجیو گپتا نے 22 مئی 2018ء کو کٹھوعہ عصمت دری و قتل کیس کی پٹھان کوٹ منتقلی کے باضابطہ احکامات جاری کردیے تھے۔ سپریم کورٹ کے حکم پر 31 مئی کو ڈسٹرک اینڈ سیشنز جج ڈاکٹر تجویندر سنگھ کی عدالت میں کیس کی 'ان کیمرہ' اور روزانہ کی بنیاد پر سماعت شروع ہوئی۔

کیس کے ملزمان میں واقعہ کے سرغنہ اور مندر کے نگران سانجی رام، اس کا بیٹا وشال کمار، سانجی رام کا بھتیجا (نابالغ ملزم)، نابالغ ملزم کا دوست پرویش کمار عرف منو، ایس پی او دیپک کھجوریہ، ایس پی او سریندر ورما، تحقیقاتی افسران تلک راج اور آنند دتا شامل ہیں۔

سانجی رام پر عصمت دری و قتل کی سازش رچنے، وشال سے لیکر پرویش کمار پر عصمت دری و قتل اور تحقیقاتی افسران تلک راج و آنند دتا پر شواہد مٹانے کے الزامات ہیں۔

کیس کی ایک سماعت 16 اپریل 2018ء کو سیشن جج کٹھوعہ کی عدالت میں ہوئی تھی۔ جن ملزمان کو عدالت میں پیش کیا گیا تھا، نے جج موصوف کے سامنے اپنے آپ کو بے گناہ بتاتے ہوئے نارکو ٹیسٹ (جھوٹ پکڑنے والا ٹیسٹ) کرانے کا مطالبہ کیا تھا۔ تاہم متاثرہ کی فیملی کی جانب سے کیس کو چندی گڈھ منتقل کرنے کے لئے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا تھا۔ عدالت عظمیٰ نے اپنی پہلی سماعت میں کیس کی کٹھوعہ عدالت میں سماعت پر روک لگائی تھی۔


جہاں ایک طرف یہ وکلاء ابھی بھی اس کیس میں سی بی آئی کے ذریعے تحقیقات کی مانگ کررہے ہیں وہیں اس کیس کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر اس کو فرقہ پرستی کے ساتھ جوڑنے کی سر توڑ کوششیں بھی شروع ہوگئی ہیں۔

ملزموں میں سے ایک ملزم کے وکیل اور 'اک جٹ جموں' نامی تنظیم کے چیئرمین ایڈوکیٹ انکر شرما اس وحشیانہ اور شرمناک کیس کو ایک سازش سے تعبیر کرکے ہندو فرقے کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کا ایک موثر آلہ قرار دیتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے: 'رسانہ کیس میں سی بی آئی انکوائری کی مانگ ایک جائز مانگ تھی، کچھ ایسے شواہد سامنے آئے تھے جس سے یہ ثابت ہوا کہ یہ کوئی عام قتل نہیں تھا، اس کے پیچھے ایک بہت بڑی سازش تھی جس میں محبوبہ مفتی اور دیگر لوگوں نے ماحول کو خراب کرنے میں اپنا اپنا رول ادا کیا، لیکن بدقسمتی سے اُس سازش کے جو الگ الگ پہلو تھے ان کی تحقیقات نہیں کی گئی'۔

ان کا دعویٰ ہے کہ کیس میں منصوبہ بند تحقیقات ہوئی اور اس میں ہندوئوں کو بین الاقوامی سطح پر بدنام کرنے کی سوچ کار فرما تھی۔

ایڈوکیٹ شرما اس کیس کو روشنی ایکٹ سے بھی جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کو اقلیتی فرقوں کے خلاف ایک سازش بھی قرار دیتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے: 'جموں کشمیر میں سٹیٹ اپریٹس اقلیت مخالف ہے، یہاں کے اقلیتوں فرقوں میں ہندو، سکھ، بودھ اور جین ہیں اور یہاں کی سرکاریں الگ الگ طریقوں سے انہیں نشانہ بناتی ہیں، نوکریوں میں امتیاز برتا جاتا ہے اور روشنی ایکٹ اور محبوبہ مفتی کا 14 فروری 2018ء کا حکم نامہ جس کے خلاف میں نے پریس کانفرنس کی اور اس کو عوام میں اجاگر کیا، بنایا جاتا ہے'۔

انکر شرما کا کہنا ہے کہ اس کیس کی خصوصی تحقیقاتی ٹیم نے کورٹ میں جو گواہ اور شواہد پیش کئے ہیں اس قدر ٹھوس نہیں ہیں کہ ملزموں کو سزا ملے، اس کیس میں میڈیا ٹرائل ہوا، سیاسی دخل اندازی بھی ہوئی اور اس کو عالمی سطح پر ہندوئوں کو بدنام کرنے کے لئے بھی استعمال کیا گیا'۔

ان کا کہنا ہے کہ اس کیس میں مبنی بر حق تحقیقات نہیں ہوئی بلکہ خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے میں بھی امتیاز برتا گیا۔

موصوف ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ اس کیس میں منصفانہ تحقیقات نہیں ہوئی، جہادیوں کی حامی عورت (محبوبہ مفتی) نے اپنے حساب کے مطابق خصوصی تحقیقاتی ٹیم بنائی جس نے بے بنیاد شواہد کو پیش کرنے کی کوشش کی لیکن ہماری لڑائی جاری رہے گی'۔

ایڈوکیٹ شرما کشمیر کے صحافیوں اور سیاست دانوں پر بھی اس کیس کو ہندوئوں کےخلاف استعمال کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہتے ہیں: 'اس کیس کو کشمیر کے صحافیوں اور سیاست دانوں نے بھی استعمال کیا جس کا مقصد ہندوئوں، ڈوگروں اور ملک کو بدنام کرنا تھا اور سوچ یہ تھی کہ جموں کی ڈیموگرافی کو تبدیل کیا جائے'۔

انہوں نے کہا کہ اس کیس کو استعمال کرنے کا مقصد یہ تھا کہ جموں کو اسلامئز کیا جائے اور یہاں کے لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کیا جائے۔

انکر شرما کا کہنا ہے کہ یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ دس تاریخ کو جج صاحب کیا فیصلہ سنائیں گے اور ہمیں امید ہے کہ اگر شواہد کا تنقیدی طور جائزہ لیا جائے گا تو ملزمان بری ہوں گے اور ہمیں یہ بھی امید ہے کہ سرکار اس کو سیاسی نظریے سے بھی دیکھے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر کیس میں کچھ اوپر نیچے ہوا تو ان کے لئے اپیل کا راستہ کھلا ہے۔

ملزمان کے ایک اور وکیل اے کے ساونی بھی کیس کی سی بی آئی سے تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔

انہوں نے گزشتہ ہفتے ایک انٹرویو میں کہا: 'بحیثیت ڈیفنس کونسل جو اعتماد ہوتا وہ ہمیں شروع سے ہی رہا کہ یہ بے قصور لوگ تھے، بہت اچھا ہوتا اگر سی بی آئی انکوائری ہوتی تو اصلی قصوروار پکڑے جاتے، یہ کیس سی بی آئی انکوائری کے لئے فٹ کیس تھا اور اس طرح دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ ہوتا اور اصلی مجرم سامنے آتے'۔

تاہم متاثرہ بچی کے والد محمد یوسف پجوال کے ذاتی وکیل (پرائیویٹ کونسل) مبین فاروقی جو سپیشل پبلک پراسیکیوٹرس سنتوک سنگھ بسرا اور جگ دیش کمار چوپڑا کو کیس میں اسسٹ کررہے ہیں، کا کہنا ہے کہ ملزمان کو سزائیں ملنا ایک سو ایک فیصد طے ہے۔

قابل ذکر ہے کہ ضلع کٹھوعہ کے تحصیل ہیرانگر کے رسانہ نامی گاﺅں کی رہنے والی آٹھ سالہ کمسن بچی جو کہ گجر بکروال طبقہ سے تعلق رکھتی تھی، کو 10 جنوری 2018ء کو اس وقت اغوا کیا گیا تھا جب وہ گھوڑوں کو چرانے کے لئے نزدیکی جنگل گئی ہوئی تھی۔ اس کی لاش 17 جنوری کو ہیرا نگر میں جھاڑیوں سے برآمد کی گئی تھی۔ کرائم برانچ پولیس نے مئی کے مہینے میں واقعہ کے سبھی 8 ملزمان کے خلاف چالان عدالت میں پیش کیا۔

کرائم برانچ نے اپنی تحقیقات میں کہا ہے کہ آٹھ سالہ بچی کو رسانہ اور اس سے ملحقہ گائوں کے کچھ افراد نے عصمت ریزی کے بعد قتل کیا۔ تحقیقات کے مطابق متاثرہ بچی کے اغوا، عصمت دری اور سفاکانہ قتل کا مقصد علاقہ میں رہائش پذیر چند گوجر بکروال کنبوں کو ڈرانا دھمکانا اور ہجرت پر مجبور کرانا تھا۔ تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ کمسن بچی کو اغوا کرنے کے بعد ایک مقامی مندر میں قید رکھا گیاتھا جہاں اسے نشہ آور ادویات کھلائی گئیں اور قتل کرنے سے پہلے اسے مسلسل درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔

سپریم کورٹ نے 7 مئی 2018ء کو کٹھوعہ کیس کی جانچ سی بی آئی سے کرانے سے انکار کرتے ہوئے کیس کی سماعت کٹھوعہ سے پٹھان کوٹ کی عدالت میں منتقل کرنے کی ہدایت دی تھی۔ اُس وقت کے چیف جسٹس جسٹس دیپک مشرا کی صدارت والی بینچ نے یہ حکم سنایا تھا۔ سپریم کورٹ کے حکم نامے کی روشنی میں پرنسپل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج کٹھوعہ سنجیو گپتا نے 22 مئی 2018ء کو کٹھوعہ عصمت دری و قتل کیس کی پٹھان کوٹ منتقلی کے باضابطہ احکامات جاری کردیے تھے۔ سپریم کورٹ کے حکم پر 31 مئی کو ڈسٹرک اینڈ سیشنز جج ڈاکٹر تجویندر سنگھ کی عدالت میں کیس کی 'ان کیمرہ' اور روزانہ کی بنیاد پر سماعت شروع ہوئی۔

کیس کے ملزمان میں واقعہ کے سرغنہ اور مندر کے نگران سانجی رام، اس کا بیٹا وشال کمار، سانجی رام کا بھتیجا (نابالغ ملزم)، نابالغ ملزم کا دوست پرویش کمار عرف منو، ایس پی او دیپک کھجوریہ، ایس پی او سریندر ورما، تحقیقاتی افسران تلک راج اور آنند دتا شامل ہیں۔

سانجی رام پر عصمت دری و قتل کی سازش رچنے، وشال سے لیکر پرویش کمار پر عصمت دری و قتل اور تحقیقاتی افسران تلک راج و آنند دتا پر شواہد مٹانے کے الزامات ہیں۔

کیس کی ایک سماعت 16 اپریل 2018ء کو سیشن جج کٹھوعہ کی عدالت میں ہوئی تھی۔ جن ملزمان کو عدالت میں پیش کیا گیا تھا، نے جج موصوف کے سامنے اپنے آپ کو بے گناہ بتاتے ہوئے نارکو ٹیسٹ (جھوٹ پکڑنے والا ٹیسٹ) کرانے کا مطالبہ کیا تھا۔ تاہم متاثرہ کی فیملی کی جانب سے کیس کو چندی گڈھ منتقل کرنے کے لئے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا تھا۔ عدالت عظمیٰ نے اپنی پہلی سماعت میں کیس کی کٹھوعہ عدالت میں سماعت پر روک لگائی تھی۔

Intro:Body:

News


Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.