ETV Bharat / state

Muharram 2023 علم نہیں کر دار حسینی کو اٹھانے کی ضرورت - حسینی کردار کو اپنانے کی ضرورت

عزیز اللہ سرمست نے کہا کہ یوم عاشورہ کے دن روزہ رکھنا، اہل بیت اطہار سے محبت کا اظہار کرنا، قرآن خوانی کی محافل سجانا، نواسہ رسول جگر گوشہ بتول حضرت سید نا امام حسینؓ کی عظمت و مناقب بیان کرنا، امام حسینؓ اور دیگر شہدائے کربلا کی داستان مظلومیت بیان کرنا و دیگر سرگرمیاں عمل میں لائی جاتی ہیں اور ان سرگرمیوں کو اجر و ثواب کا ضامن سمجھا جاتا ہے لیکن واقعہ کربلا کے عظیم پیغام کو یاد کرنا اور اُ س پر عمل کرنا بھی بے حد ضروری ہے۔

Etv Bharat
Etv Bharat
author img

By

Published : Jul 28, 2023, 4:47 PM IST

بیدر: حضرت صوفی سرمست اسلامک اسٹڈی سرکل گلبرگہ کے صدر عزیز اللہ سرمست نے کہا کہ یوم عاشورہ کے دن روزہ رکھنا، اہل بیت اطہار سے محبت کا اظہار کرنا، قرآن خوانی کی محافل سجانا، نواسہ رسول جگر گوشہ بتول حضرت سید نا امام حسینؓ کی عظمت و مناقب بیان کرنا، امام حسینؓ اور دیگر شہدائے کربلا کی داستان مظلومیت بیان کرنا، امام حسینؓ اور دیگر شہدائے کربلا کے نام پر غریبوں، محتاجوں، بیواؤں، مریضوں، مفلسوں، یتیموں اور بے سہارالوگوں کو کھانا کھلانا، شربت پلانا، صدقہ خیر خیرات کرنا، یاد حسینؓ کی مجالس کا اہتمام کرنا مرثیہ خوانی کرنا، ماتم کرنا، غم حسین ؓ میں آنسو بہانا یہ ہماری محرم کے مہینے کی سرگرمیاں ہیں۔ ان سر گرمیوں کو اجر و ثواب کا ضامن سمجھا جاتا ہے لیکن واقعہ کربلا کے عظیم پیغام کو یاد کرنا اور اُ س پر عمل کرنا بھی بے حد ضروری ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ حضرت امام حسین ؓکے عظیم کردار کو صرف تقریر کا موضو ع بنانا اور عقیدت کا مرکز بنانا کافی نہیں ہے بلکہ امام حسین ؓکے کردار کو اپنانا اورانہوں نے جس عظیم مقصد کے لئے کر بلا میں اپنی اور اپنے خاندان کی قربانی دی اُ س کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا بھی ضروری ہے۔صرف واقعات کربلا بیان کرنا اور سننا یہ امام حسین ؓکے ساتھ محبت و عقیدت کا تقاضہ نہیں ہے۔ آج ہمیں بھی کربلا کے میدان سے گذرنے کے لئے اپنے آپ کو تیار کرنے کی ضرورت ہے۔قرآن مجید میں سورہ العنکوبت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ انہیں صرف اتنی بات پر چھوڑ دیا جائے گا کہ وہ کہیں ہم ایمان لے آئے اور انہیں آزمایا نہ جائے گا۔ اس آیت پا ک سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ایمان اور امتحان لازم و ملزوم ہے۔ ابتلاء و آزمائش سے کسی صاحب ایمان کو مفر نہیں بلکہ ہر مومن کو آزمائش سے گزرنہ پڑتا ہے جس کے بدلے میں ہی اللہ تعالی اس بندہ مومن کا مقام و مرتبہ اعلیٰ وارفع فرماتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ؐ نے فرمایا کہ اللہ کے یہاں بندے کے لئے ایک مقام و مرتبہ مقرر ہے جہاں تک وہ اپنے عمل کی بدولت نہیں پہنچ سکتا تو اللہ تعالیٰ اسے آزمائش میں ڈالتا ہے تاکہ اسے اس مرتبے تک پہنچا دے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ کے نیک بندے اور صالحین جن آزمائشوں اور امتحانات سے گذرے ہیں ہم انہیں سمجھنے کی کوشش کریں اور یہ جاننے کی کوشش کریں کہ اللہ کے نیک بندے اور صالحین آزمائش و امتحان میں کس طرح ثابت قد م رہے اور ہمیں بھی آزمائش و امتحان سے گذرنے کے لئے اور ثابت قد م رہنے کے لئے تیار رہنا ہوگا اور صالحین کی زندگی سے رہنمائی حاصل کرنی ہوگی۔واقعہ کربلا کا پیغام بھی یہی ہے کہ ہم باطل قوتوں سے ٹکرانے کا عزم پیدا کریں اور اسلامی تعلیمات کو فراموش کرنے، شریعت میں مداخلت کو ہرگز گوارہ نہ کریں۔ یزیدی لشکر کا کوئی داؤ، کوئی حر بہ قافلہ حسینی کے کسی فرد کے پائے استقلال میں رمق برابر جنبش پیدا نہیں کر سکا۔ معصوم علی اصغر کے حلقوم پر تیر چلایا گیا، پانی بند کر دیا گیا اور تیر و تلواروں کی بارش کی گئی لیکن حسینی قافلہ کے عزم کو نہیں بدلہ جا سکا۔

عزیز اللہ سرمست نے کہا ہ آج ہم جن حالات سے دو چار ہیں ان کا مقا بلہ کرنے کے لئے ہمیں اما م حسین ؓکے باطل سے ٹکرانے کے عزم، شجاعت اور ایثار و قربانی کے جذبہ کو اپنانا ہوگا ورنہ امام حسین ؓسے ہماری محبت و عقیدت زبانی ہوگی اور اس سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔جب بھی یزیدی طاقتیں سر اٹھاتی ہیں تو ہمیں حسینی کردار پیش کرنا ہوگا لیکن ہم صرف علمبر دار بن کر رہ گئے ہیں۔ہمیں امام حسین کا علم نہیں بلکہ ان کا کردار اٹھانے کی ضرورت ہے۔رسول رحمت ؐنے صحابہ سے ارشاد فرمایا کہ تمہارے بعد صبر کا زمانہ آئے گا اور جو شخص اس زمانے میں دین سے مضبوطی کے ساتھ چمٹ جائے گا اس کو تم میں سے 50 شہید وں کے برابر اجر و ثواب ملے گا۔اس سے ہم اندازہ لگائیں کہ موجودہ حالات میں دین پر مضبوطی سے قائم رہنے اور اس کے لئے جان کو قربان کرنے سے کتنا بلند مقام و مرتبہ اور اجر و ثواب حاصل ہو گا۔صحابہ کے مقام و مرتبہ کو کوئی نہیں پہنچ سکتا لیکن رسول رحمت ؐکے ارشاد کی روشنی میں ایمان پر ثابت قدمی سے ہم اجر و ثواب ہی نہیں کامیابی بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ ملک کے موجودہ حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم کربلا کے پیغام کو سمجھیں اور اسے اپنے اوپر لاگو کریں۔ واقعہ کربلا کا سب سے بڑا پیغام یہ ہے کہ مسلمان اپنی تعداد پر نہیں بلکہ اپنے عزم پر کامل بھروسہ رکھیں۔

یہ بھی پڑھیں: Significance of Muharram 'کربلا حق کا پیغام ہے'

انہوں نے کہا کہ سورہ بقرہ میں اللہ تعالی فر ماتا ہے کہ بارہا چھوٹی جماعتیں غالب آئی ہیں بڑی جماعتوں پر اللہ کے اذن سے۔یعنی مٹھی بھر صاحب ایمان اللہ تعا لیٰ کی تائید و نصرت سے باطل کے لشکر جرار کو شکست دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور تاریخ میں ایسے بے شمار واقعات ہیں جن میں جب بھی حق کا باطل سے ٹکراؤ ہوا تو حق پر ستوں، مومنوں کی تعداد باطل کی تعداد سے کم رہی۔ہمیشہ حق اور باطل میں جب بھی ٹکراؤ ہوا 30 اور 70 فیصد کے تناسب کا فرق رہالیکن غلبہ فتح و نصرت حق کو ہی حاصل رہی۔آج ہم امام حسینؓ کو یاد کر رہے ہیں لیکن باطل سے ٹکرانے کی ان کی جو جرات تھی،حوصلہ تھا، جو عزم مصمم تھا ہم میں اس کا فقدان پایا جاتا ہے اورہم امام حسین ؓ کی جرات، حوصلے اور عزم کو اپنانے کے لئے تیار نہیں۔ہم ہمیشہ مخالف حالات اور آزمائشوں میں یہ رونا روتے ہیں کے ہم اقلیت میں ہیں ہم کیا کرسکتے ہیں؟ہماری یہ سوچ اسلامی تعلیمات اور تاریخ اسلام کے سراسر خلا ف ہے۔ معرکہ کربلا میں خدا کی محبت سے سرشار ایمان کی طاقت کے بل بوتے پر حسینی قافلہ صرف 72 نفوس قدسیہ پر مشتمل ہونے کے با و جود حسینی قا فلہ کے افراد نہ یزید کی فوجی طاقت و قوت اور کثرت سے پریشان ہوئے اور نہ ہی خوفزدہ بلکہ پوری قوت،آب و تاب،ایما نی حرارت اور کمال شجاعت کے ساتھ یزید کی کثیر فوج سے مقابلہ کرنے کے لئے میدان کربلا میں صرف پہنچے ہی نہیں بلکہ مقابلہ کیا اور اپنی قربانیوں سے ایک تاریخ بنائی کہ باطل کے سامنے حق پرست کبھی نہیں جھکتے۔ایک طرف ہم امام حسین کا نام لیتے ہیں اور ان کے عقیدت مند ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور دوسری جانب ہم باطل طاقت، یزیدی طاقت سے دب جاتے ہیں مرعوب ہوجاتے ہیں یا پھر سمجھوتہ کر لیتے ہیں یہ تضا د ہی ہماری ذلت و رسوائی کا اصل سبب ہے۔

قتل حسین ؓاصل میں مر گ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

بیدر: حضرت صوفی سرمست اسلامک اسٹڈی سرکل گلبرگہ کے صدر عزیز اللہ سرمست نے کہا کہ یوم عاشورہ کے دن روزہ رکھنا، اہل بیت اطہار سے محبت کا اظہار کرنا، قرآن خوانی کی محافل سجانا، نواسہ رسول جگر گوشہ بتول حضرت سید نا امام حسینؓ کی عظمت و مناقب بیان کرنا، امام حسینؓ اور دیگر شہدائے کربلا کی داستان مظلومیت بیان کرنا، امام حسینؓ اور دیگر شہدائے کربلا کے نام پر غریبوں، محتاجوں، بیواؤں، مریضوں، مفلسوں، یتیموں اور بے سہارالوگوں کو کھانا کھلانا، شربت پلانا، صدقہ خیر خیرات کرنا، یاد حسینؓ کی مجالس کا اہتمام کرنا مرثیہ خوانی کرنا، ماتم کرنا، غم حسین ؓ میں آنسو بہانا یہ ہماری محرم کے مہینے کی سرگرمیاں ہیں۔ ان سر گرمیوں کو اجر و ثواب کا ضامن سمجھا جاتا ہے لیکن واقعہ کربلا کے عظیم پیغام کو یاد کرنا اور اُ س پر عمل کرنا بھی بے حد ضروری ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ حضرت امام حسین ؓکے عظیم کردار کو صرف تقریر کا موضو ع بنانا اور عقیدت کا مرکز بنانا کافی نہیں ہے بلکہ امام حسین ؓکے کردار کو اپنانا اورانہوں نے جس عظیم مقصد کے لئے کر بلا میں اپنی اور اپنے خاندان کی قربانی دی اُ س کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا بھی ضروری ہے۔صرف واقعات کربلا بیان کرنا اور سننا یہ امام حسین ؓکے ساتھ محبت و عقیدت کا تقاضہ نہیں ہے۔ آج ہمیں بھی کربلا کے میدان سے گذرنے کے لئے اپنے آپ کو تیار کرنے کی ضرورت ہے۔قرآن مجید میں سورہ العنکوبت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ انہیں صرف اتنی بات پر چھوڑ دیا جائے گا کہ وہ کہیں ہم ایمان لے آئے اور انہیں آزمایا نہ جائے گا۔ اس آیت پا ک سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ایمان اور امتحان لازم و ملزوم ہے۔ ابتلاء و آزمائش سے کسی صاحب ایمان کو مفر نہیں بلکہ ہر مومن کو آزمائش سے گزرنہ پڑتا ہے جس کے بدلے میں ہی اللہ تعالی اس بندہ مومن کا مقام و مرتبہ اعلیٰ وارفع فرماتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ؐ نے فرمایا کہ اللہ کے یہاں بندے کے لئے ایک مقام و مرتبہ مقرر ہے جہاں تک وہ اپنے عمل کی بدولت نہیں پہنچ سکتا تو اللہ تعالیٰ اسے آزمائش میں ڈالتا ہے تاکہ اسے اس مرتبے تک پہنچا دے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ کے نیک بندے اور صالحین جن آزمائشوں اور امتحانات سے گذرے ہیں ہم انہیں سمجھنے کی کوشش کریں اور یہ جاننے کی کوشش کریں کہ اللہ کے نیک بندے اور صالحین آزمائش و امتحان میں کس طرح ثابت قد م رہے اور ہمیں بھی آزمائش و امتحان سے گذرنے کے لئے اور ثابت قد م رہنے کے لئے تیار رہنا ہوگا اور صالحین کی زندگی سے رہنمائی حاصل کرنی ہوگی۔واقعہ کربلا کا پیغام بھی یہی ہے کہ ہم باطل قوتوں سے ٹکرانے کا عزم پیدا کریں اور اسلامی تعلیمات کو فراموش کرنے، شریعت میں مداخلت کو ہرگز گوارہ نہ کریں۔ یزیدی لشکر کا کوئی داؤ، کوئی حر بہ قافلہ حسینی کے کسی فرد کے پائے استقلال میں رمق برابر جنبش پیدا نہیں کر سکا۔ معصوم علی اصغر کے حلقوم پر تیر چلایا گیا، پانی بند کر دیا گیا اور تیر و تلواروں کی بارش کی گئی لیکن حسینی قافلہ کے عزم کو نہیں بدلہ جا سکا۔

عزیز اللہ سرمست نے کہا ہ آج ہم جن حالات سے دو چار ہیں ان کا مقا بلہ کرنے کے لئے ہمیں اما م حسین ؓکے باطل سے ٹکرانے کے عزم، شجاعت اور ایثار و قربانی کے جذبہ کو اپنانا ہوگا ورنہ امام حسین ؓسے ہماری محبت و عقیدت زبانی ہوگی اور اس سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔جب بھی یزیدی طاقتیں سر اٹھاتی ہیں تو ہمیں حسینی کردار پیش کرنا ہوگا لیکن ہم صرف علمبر دار بن کر رہ گئے ہیں۔ہمیں امام حسین کا علم نہیں بلکہ ان کا کردار اٹھانے کی ضرورت ہے۔رسول رحمت ؐنے صحابہ سے ارشاد فرمایا کہ تمہارے بعد صبر کا زمانہ آئے گا اور جو شخص اس زمانے میں دین سے مضبوطی کے ساتھ چمٹ جائے گا اس کو تم میں سے 50 شہید وں کے برابر اجر و ثواب ملے گا۔اس سے ہم اندازہ لگائیں کہ موجودہ حالات میں دین پر مضبوطی سے قائم رہنے اور اس کے لئے جان کو قربان کرنے سے کتنا بلند مقام و مرتبہ اور اجر و ثواب حاصل ہو گا۔صحابہ کے مقام و مرتبہ کو کوئی نہیں پہنچ سکتا لیکن رسول رحمت ؐکے ارشاد کی روشنی میں ایمان پر ثابت قدمی سے ہم اجر و ثواب ہی نہیں کامیابی بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ ملک کے موجودہ حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم کربلا کے پیغام کو سمجھیں اور اسے اپنے اوپر لاگو کریں۔ واقعہ کربلا کا سب سے بڑا پیغام یہ ہے کہ مسلمان اپنی تعداد پر نہیں بلکہ اپنے عزم پر کامل بھروسہ رکھیں۔

یہ بھی پڑھیں: Significance of Muharram 'کربلا حق کا پیغام ہے'

انہوں نے کہا کہ سورہ بقرہ میں اللہ تعالی فر ماتا ہے کہ بارہا چھوٹی جماعتیں غالب آئی ہیں بڑی جماعتوں پر اللہ کے اذن سے۔یعنی مٹھی بھر صاحب ایمان اللہ تعا لیٰ کی تائید و نصرت سے باطل کے لشکر جرار کو شکست دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور تاریخ میں ایسے بے شمار واقعات ہیں جن میں جب بھی حق کا باطل سے ٹکراؤ ہوا تو حق پر ستوں، مومنوں کی تعداد باطل کی تعداد سے کم رہی۔ہمیشہ حق اور باطل میں جب بھی ٹکراؤ ہوا 30 اور 70 فیصد کے تناسب کا فرق رہالیکن غلبہ فتح و نصرت حق کو ہی حاصل رہی۔آج ہم امام حسینؓ کو یاد کر رہے ہیں لیکن باطل سے ٹکرانے کی ان کی جو جرات تھی،حوصلہ تھا، جو عزم مصمم تھا ہم میں اس کا فقدان پایا جاتا ہے اورہم امام حسین ؓ کی جرات، حوصلے اور عزم کو اپنانے کے لئے تیار نہیں۔ہم ہمیشہ مخالف حالات اور آزمائشوں میں یہ رونا روتے ہیں کے ہم اقلیت میں ہیں ہم کیا کرسکتے ہیں؟ہماری یہ سوچ اسلامی تعلیمات اور تاریخ اسلام کے سراسر خلا ف ہے۔ معرکہ کربلا میں خدا کی محبت سے سرشار ایمان کی طاقت کے بل بوتے پر حسینی قافلہ صرف 72 نفوس قدسیہ پر مشتمل ہونے کے با و جود حسینی قا فلہ کے افراد نہ یزید کی فوجی طاقت و قوت اور کثرت سے پریشان ہوئے اور نہ ہی خوفزدہ بلکہ پوری قوت،آب و تاب،ایما نی حرارت اور کمال شجاعت کے ساتھ یزید کی کثیر فوج سے مقابلہ کرنے کے لئے میدان کربلا میں صرف پہنچے ہی نہیں بلکہ مقابلہ کیا اور اپنی قربانیوں سے ایک تاریخ بنائی کہ باطل کے سامنے حق پرست کبھی نہیں جھکتے۔ایک طرف ہم امام حسین کا نام لیتے ہیں اور ان کے عقیدت مند ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور دوسری جانب ہم باطل طاقت، یزیدی طاقت سے دب جاتے ہیں مرعوب ہوجاتے ہیں یا پھر سمجھوتہ کر لیتے ہیں یہ تضا د ہی ہماری ذلت و رسوائی کا اصل سبب ہے۔

قتل حسین ؓاصل میں مر گ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.