یادگیر: ریاست کرناٹک کے علاقہ کلیان کے قدآور سماجی کارکن اور سیاست داں عبدالمنان سیٹھ نے کرناٹک سے مسلمانوں کے ریزرویشن کو ختم کرنے کے حوالے سے وزیر اعلی بومئی کے بیان کے تعلق سے ایک پریس نوٹ جاری کر کے کہا کہ بی جے پی کی مسلم دشمنی ہر ریاست میں عیاں ہے، لیکن کرناٹک میں اس نے تو حد ہی کردی ہے۔ The issue of reservation in relation to Muslims in Karnataka
انہوں نے کہا کہ گزشتہ دنوں مرکزی حکومت نے ٹیپوسلطان ایکسپریس ٹرین کا نام بدل دیا تھا کہ اسی درمیان میں وزیر اعلیٰ بسواراج بومئی کرناٹک سے مسلم ریزرویشن ختم کرنے کا شوشہ چھوڑ چکے ہیں، جس پر مسلم حلقوں میں فکرمندی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ بی جے پی کی اس مسلم دشمنی پر اہل علم، اہل نظر، اور اہل سیاست حیرت زدہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ ریزرویشن ختم کر دیے جانے سے مسلمان تعلیم اور ملازمت میں پیچھے رہ جائیں گے۔
عبدالمنان سیٹھ نے اپنے بیان میں اس حقیقت سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی کہ کرناٹک کے مسلمانوں کو آج 4%ریزرویشن حاصل ہے۔ ریاست کی بی جے پی حکومت مسلمانوں کو 2A زمرہ میں لاناچاہتی ہے جہاں 101 ذاتیں پہلے سے موجود ہیں۔اور ان تمام 101 ذاتوں کو جملہ 15%ریزرویشن حاصل ہے، جن میں سے چند کے نام یوں ہیں کلال، پھلاری، بڑھئی، مالی، ہٹ کر، کمہار، دھوبی وغیرہ۔
انہوں نے ریاست کرناٹک کے مسلم قائدین سے اور خصوصاً کلیان کرناٹک کی سماجی،تعلیمی، اور فلاحی تنظیموں سے اپیل کی ہے کہ وہ فوری ایک اجلاس منعقد کرکے ریزرویشن سے متعلق اپنی اسٹڈی کو پیش کریں اور پھر آئندہ کالائحہ عمل طئے کریں،انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں مسلمانوں کو 4 فیصد ریزرویشن سے ہٹ کر مزید 2 فیصد ریزرویشن کی ضرورت ہے۔جملہ ریزرویشن 6%ہو۔ کیوں کہ علاقہ کلیان کرناٹک کے کسی بھی محکمہ میں مسلمان ایک فیصد سے بھی کم نظرآتے ہیں، اگر ضرورت پڑے تو قانونی لڑائی کے لئے تیار رہیں۔
عبدالمنان سیٹھ نے کرناٹک کے مسلمانوں کو اپنی صفوں میں سیاسی اتحا دپیدا کرنے اور خصوصاً نوجوانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ صبر سے کام لیتے ہوئے اپنی تعلیم اور اپنے مستقبل سے مایوس نہ ہوں۔ کیوں کہ ہر شر سے خیر نکلتا ہے اور ضرور نکلتا ہے۔
مزید پڑھیں:Interview With CM Ibrahim مرکزی سطح پر نریندر مودی کو اقتدار سے ہٹانے کی کوششیں شروع، سی ایم ابراہیم