قاضی شہوار الحق اپنے والد مرحوم قاضی انیس الحق کے بارے میں بتاتے ہیں کہ 'مرحوم کی خاص توجہ اردو کے فروغ اور ملت میں تعلیمی بیداری تھی تاہم اس مقصد کو پُر کرنے کے لیے انہوں نے سر سید نامی تنظیم اور سر سید کرکٹ ٹیم کی شروعات کی جس میں معروف کرکٹر سید کرمانی کھیلا کرتے تھے۔
ڈاکٹر انیس الحق نے اردو کے فروغ کے لیے مسجد منورہ میں ایک 'اردو ریڈنگ روم' قائم کیا ہے۔ اس کے علاوہ مسجد کے داخلے میں 'اردو اخبار ڈیسک' کا انتظام کیا ہے جہاں مصلیان دینی و ادبی کتب کے علوم سے آراستہ ہونے کے ساتھ ہی روزانہ اردو اخبارات سے بھی اپڈیٹ رہتے تھے۔
مرحوم کے شاگرد مولانا سید نواز نے بتایا کہ ڈاکٹر انیس الحق کا ایک اور کارنامہ مسجد میں ممتاز و جبار نامی مکتب رہا جہاں انگریزی اسکولوں میں زیر تعلیم بچوں کو دینیات کے ساتھ اردو بھی سکھائی جاتی اور طلباء کو انوکھے انداز میں اسلامی علوم سے آراستہ کیا جاتا ہے۔
معروف تھیٹر آرٹسٹ و الائنز فرنچائزی کے صدر ظفر محی الدین جو مرحوم ڈاکٹر انیس الحق کے قریبی ساتھی رہے، انہوں نے بتایا کہ سنہ 1994 میں جب انہوں نے مرکزی حکومت کی اجازت سے کرناٹک میں 'اردو نیوز بلیٹن' کی شروعات کی تھی تب شرپسندوں کی جانب سے ہنگامہ کیا گیا تھا جس پر ظفر محی الدین نے ایک ڈرامہ بھی پلے کیا تھا۔
ظفر محی الدین نے بتایا کہ مرحوم قاضی انیس الحق نے کئی کتابوں کی تصنیف کی جنہیں ایوارس بھی ملے۔ پہلے اخباروں سے وابستہ رہے لیکن وقت کی ضرورت کے ساتھ انہوں نے ایک کیبل ٹی وی چینل بنام 'سرور ٹی وی' شروع کیا تھا جو کہ معاشرے کی ترجمانی کیا کرتا تھا۔
ڈاکٹر انیس الحق کو یہ اعزاز بھی حاصل تھا کہ جب 1990 میں سرینگر میں ایمرجنسی کے دوران اس وقت کے دور درشن ڈائریکٹر کو عسکریت پسندوں نے مار دیا تھا تب پرخطر حالات میں بھی انہوں نے سرینگر دور درشن کیندر کو دوبارہ شروع کیا تھا۔ انہوں نے تقریباً 5 سال بنگلور یونیورسٹی میں بطور پروفیسر بھی خدمات انجام دیں۔
انہوں نے کُل 5 تصنیفات مرتب کی تاہم ان کی دو کتب کو اترپردیش اردو اکیڈمی کی جانب سے ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔
اس کے علاوہ ڈاکٹر انیس الحق کو کرناٹک اردو اکیڈمی کے 3 ایوارڈز اور بہادر شاہ ظفر ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ ڈاکٹر انیس الحق ملک و بیرون ملک کئی اداروں کے اعزازی رکن و مشیر بھی رہے۔