دو روز قبل بنگلور کے ایک جین مندر کے باہر ہندی میں پرنٹ کیے گئے بنیرز کو ہٹانے کے لیے کنڑا کارکنان نے مندر انتظامیہ کو کہا تھا۔ بینرز نہ ہٹانے کی وجہ سے کنڑا کارکنان نے خود ہی بینر ہٹادیا ۔ جس کے بعد جین مندر انتظامیہ نے مقدمہ درج کرایا۔
پولیس نے اس معاملے میں ملوث چھ کنڑا کارکنان پر مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کرکے انہیں گرفتار کیا ہے۔
جین فیڈریشن کے رکن ترلوک چند نے پولیس میں شکایت درج کرائی کہ کنڑا کارکنان نے مذاہب کے بیچ نفرت پھیلانے کا کام کررہے ہیں ۔
بھگوان مہاویر روڈ پر واقع جین مندر کے باہر لگائے گئے ہندی بینر کو کنڑا کارکنان نے پھاڑ دیا اور اس کا ایک ویڈیو بھی بناکر ان سوشل میڈیا پر وائرل کردیا۔
اسی دوران بنگلورو ساؤتھ پارلیمانی حلقے کے رکن پارلیمان تیجسوی سوریہ نے ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کنڑا کارکنان کو گونڈا عناصر قرار دیا۔
کنڑا تنظیم کے کارکنان کے گرفتار کیے جانے پر احتجاج کیا۔ پولیس کاروائی کو ظلم قرار دیتے ہوئے جین و مارواڑی سماج پر بھی شدید نکتہ چینی کی۔
مظاہرین نے جین مندر انتظامیہ اور پولیس کے خلاف جم کر نعرے بازی کی۔گرفتار کارکنان کا رہائی کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے بنگلور ساؤتھ کے رکن پارلیمان تیجسوی سوریہ کے ٹوئٹر بیان کی بھی سخت مذمت کی اور ان سے استعفی کا مطالبہ بھی کیا۔
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کرناٹکا رکشنا ویدیکے کے صدر پروین شیٹی نے کہا کہ کنڑا کارکنان نے کوئی توڑ پھوڑ نہیں کی بلکہ بینر، ہورڈنگ جو کہ ہندی میں تھا اسے اتارا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم مذہبی ہم آہنگی میں بھروسہ کرتے ہیں اور سبھی زبانوں کی عزت کرتے ہیں لیکن ریاست کرناٹک میں 'کنڑا زبان' کو سبھی کی ہے اور سے اول درجہ دیا جانا چاہیے۔
جین مندر کے ذمہ داران نے وزیر اعلیٰ یدی یورپا سے ملاقات کی اور ایک میمورنڈم پیش کرتے ہوئے گزارش کی کہ مندر میں توڑ پھوڑ کرنے والے کنڑا کارکنان پر سخت کارروائی کرے جس کے جواب میں یدی یورپا نے انہیں یقین دہانی کرائی کہ وہ پولیس کمیشنر و ڈی آئی جی سے کارروائی کی بات کریں گے۔