یادگیر: ریاست کرناٹک کے ضلع یادگیر میں واقع مدرسہ باب العلم میں سالانہ جلسہ دستار بندی حفاظ کرام وتقسیم اسناد کا انعقاد عمل میں آیا۔ اس تقریب کی صدارت الحاج عبدالعظیم سردار نے کی اور نگرانی رہبر شریعت پیر طریقت خواجہ بہاو الدین نقشبندی قادری نے کی۔ قاری حبیب محمد العطاس کی تلاوت کلام پاک سے جلسے کا آغاز ہوا اور محمد اسمعیل و عاقب الرحمن نے نعت پاک سنانے کی سعادت حاصل کی۔ اس موقعے پر مدرسہ کے طلبا نے تعلیمی مظاہرہ پیش کیا، جس میں سید آمان حسینی نے بزبان انگریزی حفظ قرآن کی فضیلت تقریر کی اور مولا حسین نے کنڑا زبان میں حسن اخلاق کے عنوان سے تقریر کی۔ اس موقعے پر سبھی علماء کرام و مشائخ عظام و حفاظ کرام کی گل پوشی وشال پوشی کی گئی۔ مہمان علماء کرام میں مولانا حافظ مفتی سید قاسم بخاری کامل الحدیث گلبرگہ نے اپنے بیان میں کہا کہ اللہ تبارک و تعالی نے اپنے کلام پاک کے الفاظ کی حفاظت کے لئے حفاظ کرام کو منتخب فرمایا ہے۔ تلاوت و قرآت کے لئے قاریوں کو منتخب کیا ہے اور معنی و مفاہیم کے لئے علماء و مفسرین کو منتخب کیا ہے۔
مولانا نے احکام و مسائل کے حوالے سے کہا کے حافظ قرآن کو جس قبر میں دفن کیا جاتا ہے وہاں سے عذاب کو اٹھا لیا جاتا ہے۔ اور حافظ قرآن کے والدین کو بروز قیامت اللہ تبارک و تعالی ایسا تاج پہنائے گا کے جس کی روشنی سورج کی روشنی سے زیادہ روشن ہوگی۔مولانا سید کلیم اللہ حینی کاشف پاشاہ نے اپنے خطاب میں کہا کے جو بندہ اپنے گھر سے علم دین حاصل کرنے کیے لئے نکلتا ہے اللہ تعالی اسے جنت کا راستہ بنا دیتا ہے۔ علم دین حاصل کرنے والوں کے لئے سمندر کی مچھلیاں زمین میں رہنے والی چوٹیاں دعا کرتی رہتی ہیں۔ مولانا مفتی ڈاکٹر احسن بن محمد الحاج ظہر الدین، حسین تارکش، غلام جیلانی نے مدارس کی اہمیت بتلاتے ہوئے کہا کے دینی مدارس اسلام کے مضبوط قلعے ہیں اس کی حفاظت مسلمانوں کی اولین ذمہ داری ہے۔ مدارس چلانے میں انتظامی کمیٹی اساتذہ گرام والدین طلباء کا اہم کردار ہوتا ہے۔ اور حفاظ کرام کو دین کی خدمت اور احکام اسلام پر مکمل عمل پیرا ہونے کی ترغیب دی ۔مولانا خواجہ بہاوالدین نقشبندی نے دعا کی ۔
اس سے قبل حافظ وقاری نواز خان نے علماء ومشائخ کا استقبال کیا اور کلمات تشکر کیا۔ حافظ محمد حسن ملا نظامی نے مدرسہ کی تفصیلی تعلیمی سالانہ رپورٹ پیش کی۔ صلوۃ وسلام کے ساتھ جلسہ کا اختتام عمل میں آیا۔ نظامت کے فرائض محمد حسن ملا نے انجام دیئے۔ اس موقع پر علماء ومشائخ کے علاوہ عامۃ الناس کی کثیر سے کثیر تعداد شریک رہی۔ جس میں قابل ذکر ۔ حافظ وقاری حبیب ابوبکر الحامد سید منیر قادری۔ حافظ محمد اسلم حافظ محمد جلال الدین ۔ حافظ سید عبدالرحمن مولانا فاروق بن مخاشن۔ حافظ عبدالعظیم ۔ مولانا صادق حسین محمد صادق جلالی، محمد فاروق احمد ،سید مشتاق احمد، محمد عمران ۔ مبارک بن جمیل۔ عبدالرحمن اسرار ،ڈاکٹر عارف حسن، عبدالنبی حوالدار ،محمد اسمعیل پیارے۔ محمد نعیم الدین ناصر حسین ۔ رفیق احمد ۔ ذاکر احمد ۔ اقبال احمد ، شوکت کے علاوہ دیگر شامل ہیں