ریاست کرناٹک کے اُڈوپی ضلع میں باحجاب طالبات کو کالج کیمپس میں داخلہ نہ داخلہ نہ دینے کے بعد سے جاری احتجاج میں شدت پیدا ہوگئی ہے۔ Hijab Ban in Karnataka اُڈوپی میں طالبات کے احتجاج کے بعد دیگر طلبہ بھی بھگوا شال اور مفلر کے ساتھ ان طالبات کی مخالفت نے اتر آئے جس کے بعد دیگر اضلاع کے کالجز میں بھی حالات کشیدہ ہوگئے۔
اُڈوپی کے بعد ضلع شیواموگا اور داونگیرے میں بھی حالات کشیدہ ہوگئے جس کے بعد وہاں دفعہ 144 نافذ کر دیا گیا ہے۔ حجاب اور بھگوا اسکارف کو لے کر تشدد، پتھراؤ اور ہلکا لاٹھی چارج ہوا۔
واضح رہے کہ اُڈوپی کے طلباء اور والدین نے حجاب کو چیلنج کرتے ہوئے کرناٹک ہائی کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن دائر کی ہے۔
اس دوران ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران این کرشنا دکشت نے دفاع کے لیے دلائل دیئے۔ ریاستی حکومت نے اسکولوں اور کالجوں میں یونیفارم کو لازمی قرار دیا ہے لیکن حجاب اور بھگوا اسکارف ریاست کے کئی اضلاع میں موضوع بحث بن چکے ہیں اور اسکولوں اور کالجوں میں طلباء کے درمیان تنازعات کا باعث بھی بن رہے ہیں۔
ایڈوکیٹ جنرل پربھولنگا نے بتایا کہ کالجوں میں یونیفارم کو لازمی قرار دینے کا اختیار اور آزادی ہے۔
درخواست گزار کے وکیل دیودت کامت نے دلیل دی کہ قرآن پاک کے مطابق اسلام میں حجاب پہننا لازمی ہے۔ اس پر پابندی لگا کر حکومت نے طلبہ کے حقوق کو پامال کیا ہے۔ آئین کا آرٹیکل 19(1) کہتا ہے کہ لباس پہننے کا حق ہے۔ اپنے مذہب پر عمل کرنا لوگوں کا بنیادی حق ہے اور حکومت مذہبی پابندی کا تعین نہیں کر سکتی۔ حجاب سے بالوں کو ڈھانکنا چاہیے۔
درخواست گزار کے وکیل کامت نے عدالت میں دلیل دی کہ کیرالہ ہائی کورٹ نے اس حق کو تسلیم کیا ہے۔ ریاستی حکومت حجاب کے معاملے میں مداخلت نہیں کرتی ہے، جو لوگ حجاب پہننا چاہتے ہیں وہ کالج بورڈ سے پرمٹ لے سکتے ہیں۔