کرناٹک کانگریس کے لیے بحران کے وقت کام آنے والے ڈی کے شیو کمار کو انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) نے سمن جاری کیا ہے۔
ڈی کے شیو کمار کو آج ای ڈی کے سامنے پیش ہونے کے لیے کہا گیا ہے۔
آج وہ دہلی میں ای ڈی دفتر جاسکتے ہیں۔
اس سے قبل جمعرات کو کرناٹک ہائی کورٹ نے ان کی ایک عرضی خارج کردی تھی، عرضی میں شیو کمار نے ای ڈی کے سمن کو خارج کرنے کی مانگ کی تھی۔
اس لیے اب انہیں ای ڈی کے سامنے پیش ہونا ہوگا۔
کرناٹک کانگریس کے سینئر رہنما ڈی کے شیو کمار کے خلاف آمدنی سے زیادہ جائیداد کا معملہ چل رہا ہے۔
گذشتہ سال ای ڈی نے شیو کمار اور دیگر کے خلاف منی لانڈرنگ کا کیس درج کیا تھا۔
افسران کے مطابق مبینہ طور سے چوری اور حوالہ لین دین کے معاملے کی بنیاد پر معاملے درج کیے گئے تھے۔
اس سے قبل 2017 میں انکم ٹیکس محکمہ نے شیو کمار کے 64 ٹھکانوں پر چھاپے ماری کی تھی۔
ڈی کے شیو کمار نے بتایا' میں نے کورٹ سے اپیل کی تھی کہ وہ ایک عام انکم ٹیکس کا معاملہ ہے۔ میں پہلے سے ہی آئی ٹی آر داخل کرچکا ہوں۔ یہاں پرونشن آف منی لانڈرنگ(پی ایم ایل اے) کا کوئی کیس نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ گذشتہ رات اس نے (ای ڈی) مجھے جمعہ کو دوپہر ایک بجے تک دہلی آنے کے لیے سمن بھیجا ہے۔ میں قانون کا احترام کروں گا'۔
ڈی کے شیو کمار نے آگے کہا' گذشتہ دو سال سے، میری 84 سال کی ماں کی پوری پراپرٹی بیع نامی جائیداد کی شکل میں مختلف جانچ ایجنسی کے ذریعہ اٹیچ کی جاچکی ہے اور میں اس میں بیع نامی ہوں، ہمارا سارا خون پہلے ہی چوسا جاچکا ہے'۔
ہزاروں کروڑ کی جائیداد کے مالک ڈی کے شیو کمار جہاں' الیکشن انتظام کے چانکیہ' ہیں وہیں پارٹی کو ہر بحران سے نکالنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ فنڈ جمع کرنے کے ساتھ ساتھ پروگراموں میں بھیڑ جمع کرنے کا کام کرتے رہے ہیں۔
گذشتہ برس نومبر میں ریاست میں ہوئے 3 لوک سبھا اور 2اسمبلی سیٹوں کے ضمنی نتائج نے یہ ثابت کردیا تھا کہ ڈی کے شیو کمار' انتخابی مینجمنٹ کے چانکیہ' ہیں۔
شیو کمار نے اپوزیشن کا گڑھ سمجھے جانے والی بیلاری لوک سبھا سیٹ اور رام نگر اسمبلی سیٹ پر کانگریس کو جیت دلائی تھی اور پارٹی میں اپنی جگہ مضبوط کی تھی۔ خاص کرکے بیلاری سیٹ میں جہاں 14 سال بعد کانگریس پارٹی نے اس سیٹ پر جیت کا مزہ چکھا تھا ، وہیں گذشتہ دنوں جب کرناٹک میں کانگریس اور جے ڈی ایس کے اتحاد والی سرکار خطرے میں تھی تو شیو کمار دونوں پارٹی کے اعلیٰ رہنماؤں سے الگ ممبئی میں تنہا مورچہ سنبھالے ہوئے تھے اور ناراض اراکین اسمبلی کو منانے گئے تھے۔ حالانکہ ان کی کوشش کام نہیں آئی اور کرناٹک میں بی جے پی کی سرکار بن گئی۔