بنگلور: سنہ 2016 میں جسٹس سچر کمیشن کی جانب سے مسلم کمیونٹی کی تعلیمی، سماجی، معاشی اور سیاسی حالات کی تفصیلی رپورٹ کے ساتھ ان مسائل کے حل کے لئے سفارشات بھی پیش کئے گئے تھے اور سن 2014 میں پروفیسر کنڈو کمیٹی کی جانب سے سچر کمیشن کی سفارشات کی عمل آوری کا ایویالوئیشن کیا گیا۔ کنڈو کمیٹی کے ریویو کیے جانے کے بعد فائنل رپورٹ جمع کی گئی ان فائنڈنگس کے ساتھ کہ مسلم طبقے کے موجودہ حالات میں کس قدر بہتری لائی گئی ہے۔ اب سچر کمیشن سے کنڈو کمیشن تک کے 16 سال گزجانے کے بعد پروفیسر امیتابھ کنڈو نے اپنی رپورٹ کی فائنڈنگز پر روشنی ڈالی۔
اس سلسلے میں راجیہ سبھا کے رکن پارلیمان ڈاکٹر ناصر حسین نے کہا کہ کانگریس کے دور اقتدار میں سفارشات پر عمل کیا گیا تھا، جب کہ کنڈو رپورٹ کہتی ہے کہ مسلمانوں کے حالات میں کسی طرح کی کوئی واضح اور قابل ذکر بہتری نہیں آئی، تاہم اس سے مین اسٹریم میں بیداری ضرور آئی ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر ناصر حسین نے دانشوران و اہل سروت حضرات سے اپیل کی کہ وہ بھی آگے آئیں اور مسلم کمیونٹی کے حالات میں بہتری کے لئے کوششیں کریں۔ واضح رہے کہ پروفیسر امیتابھ کنڈو کی سربراہی میں پوسٹ سچر ایویلیوایشن کمیٹی نے 9 اکتوبر 2014 کو مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور نجمہ ہپت اللہ کو اپنی فائنل رپورٹ پیش کی تھی۔
مزید پڑھیں:۔ سرکاری اداروں میں مسلم ملازمین کی نمائندگی کم
سات رکنی کنڈو کمیٹی ستمبر 2013 میں مرکزی وزارت اقلیتی امور کی طرف سے قائم کی گئی تھی تاکہ بھارت کی مسلم کمیونٹی کی سماجی، اقتصادی اور تعلیمی حالت پر جسٹس راجندر سچر کمیٹی کی طرف سے دی گئی سفارشات پر عمل درآمد کا جائزہ لیا جا سکے۔ کمیٹی کا مینڈیٹ سچر کمیٹی کی رپورٹ اور وزیر اعظم کے نئے 15 نکاتی پروگرام کے نفاذ کے عمل کا جائزہ لینا تھا۔ کمیٹی سے یہ بھی کہا گیا کہ وہ وزارت اقلیتی امور اور دیگر وزارتوں کے ذریعے نافذ کیے گئے پروگراموں کے نتائج کا جائزہ لے اور ستمبر 2014 تک اصلاحی اقدامات کی سفارش کرے۔ جسٹس سچر کمیٹی اور اقلیتی امور کے وزیر کو پیش کی گئی اپنی فائنل رپورٹ میں بہتر نتائج حاصل کرنے کے لیے تجاویز پیش کی گئیں۔