بنگلورو: کرناٹک میں جامع مسجد کا تنازع اس وقت سامنے آیا ہے جب بجرنگ دل نے ہائی کورٹ میں ایک پی آئی ایل داخل کر کے اسے خالی کروانے کا مطالبہ کیا ہے۔ پی آئی ایل میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ مسجد کبھی ہندو مندر تھی۔ کرناٹک ہائی کورٹ میں داخل پی آئی ایل میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ منڈیا ضلع کے تاریخی سری رنگا پٹنہ قصبے کی جامع مسجد میں ہندو دیوتاؤں اور مندروں کے ڈھانچے کے آثار موجود ہیں۔ لہذا مسجد کو فوری طور پر خالی کر دیا جانا چاہیے اور ساتھ ہی ہندو عقیدت مندوں کو مسجد کے احاطے میں واقع کلیانی (روایتی آبی ذخیرے) میں نہانے کی اجازت دی جانی چاہیے۔ بجرنگ دل کے کارکنان نے مزید مطالبہ کیا ہے کہ گیان واپی مسجد کی طرز پر مسجد کا دوبارہ سروے کیا جائے۔ Jamia Masjid Row
واضح رہے کہ یہ پی آئی ایل بدھ کو بجرنگ دل کے ریاستی صدر منجوناتھ نے داخل کی تھی۔ منجوناتھ سمیت ہنومان کے 108 بھکتوں نے عرضی دی ہے۔ بجرنگ دل کے ذرائع بتاتے ہیں کہ ہندو روایت میں نمبر 108 کو مقدس سمجھا جاتا ہے اور اسی وجہ سے 108 عقیدت مند اس معاملے میں پارٹی بنے ہیں۔ Bajrang Dal PIL Karnataka HC Against Mosque
بجرنگ دل کارکنان نے میسور گزٹیئر، مسجد میں ہندو فن تعمیر، ہندو مورتیوں کی نوشت، مقدس آبی ذخائر اور برطانوی افسران کے حوالہ جات کا ثبوت بھی عدالت میں دیا ہے۔ قبل ازیں ہندوتوا گروپوں نے حکام سے مسجد میں نماز ادا کرنے کی منظوری مانگی تھی۔ یہ معاملہ ریاست میں ایک گرما گرم موضوع بن گیا تھا۔ مسجد کے حکام نے پہلے ہی متعلقہ حکام سے جامع مسجد کو ہندو کارکنوں سے بچانے کے لیے متعدد اپیلیں کی ہیں۔ جامع مسجد جسے مسجد الاعلی بھی کہا جاتا ہے، سری رنگا پٹنہ قلعہ کے اندر واقع ہے۔ یہ ٹیپو سلطان کے دور حکومت میں 1786-87 میں تعمیر کی گئی تھا۔ مسجد میں تین نوشتہ جات ہیں جن میں حضرت محمدﷺ کے نو ناموں کا ذکر ہے۔ Bajrang Dal PIL in Jamia Masjid Srirangapatna Case
نریندر مودی وچار منچ نے حکام کو مسجد کے سروے کے لیے عرضیاں پیش کیں اور دعویٰ کیا کہ وہ ثبوت کے ساتھ پختہ یقین رکھتے ہیں کہ جامع مسجد ہنومان مندر کو گرانے کے بعد بنائی گئی تھی۔