جنوبی کشمیر کے ضلع شوپیان میں گزشتہ ماہ پیش آئے انکائونٹر کی مختلف سیاسی جماعتوں نے غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
نیشنل کانفرنس کے صوبائی سیکریٹری برائے جموں شیخ بشیر احمد نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے شوپیاں انکائونٹر میں ہلاک کیے گئے راجوری کے تین نوجوانوں کے لواحقین کو معاوضہ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے واقعے کو ’’بدقسمتی‘‘ سے تعبیر کرتے ہوئے حفاظتی ایجنسیز کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا: ’’بدقسمتی سے سیکورٹی ایجنسیز عام شہری اور بندوق بردار (عسکریت پسند) کے مابین فرق کرنے سے قاصر ہیں۔‘‘
مزید پڑھیں: شوپیان تصادم سوالوں کے گھیرے میں، آرمی نے جاری کیا بیان
’فرضی انکائونٹر‘ کی مذمت کرتے ہوئے شیخ بشیر نے با دل نخواستہ تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا: ’’اس سے قبل بھی مختلف کمیشنز بٹھائے گئے، انکوائریز انجام دی گئیں جن کا کوئی حل نہیں نکلا، تاہم بہتر مستقبل کی امید کرتے ہوئے اس واقعے کی غیر جانبدارنہ تحقیقات ہونی چاہئے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ راجوری سے مزدوری کی غرض سے آئے تین نوجوان فوت ہو چکے ہیں، انہیں دوبارہ زندہ نہیں کیا جا سکتا تاہم حفاظتی ایجنسیز کو چاہئے کہ ایسا لائحہ عمل اختیار کریں کہ دوبارہ ایسا واقعہ پیش نہ آئے۔
یہ بھی پڑھیں: ملک میں شوپیان تصادم پر خاموشی خوفناک: سجاد لون
قابل ذکر ہے کہ گزشتہ مہینے کی 15 تاریخ کو راجوری کے رہنے والے امتیاز حسین، ابرار احمد اور تیسرے مزدور کا نام بھی ابرار احمد ہے، اپنے گھر سے شوپیان مزدوری کرنے کے لیے روانہ ہوئے تھے تاہم 17 جولائی کے بعد وہ اپنے رشتے داروں کے رابطے میں نہیں آئے ہیں۔ جس کے بعد گزشتہ روز ان تینوں افراد کے اہلخانہ نے گمشدگی کی اطلاع پولیس اسٹیشن میں درج کرائی۔ وہیں دوسری جانب سماجی رابطہ کی ویب سائٹوں پر ان کی گمشدگی اور جنوبی کشمیر کے ضلع شوپیان میں 18 جولائی کو ہوئے تصادم میں ہوئی ہلاکتوں سے جوڑا جانے لگا ہے۔ جس کے بعد بھارتی فوج کے ترجمان کرنل راجیش کالیا نے کہا ’’ہم نے سماجی رابطہ کی ویب سائٹ پر راجوری کے تین مزدوروں کے لاپتہ ہونے کی خبریں اور ان کی اس تصادم کے ساتھ وابستگی کی خبریں پڑھی ہیں۔ فوج اس تعلق سے تحقیقات کر رہی ہے۔‘‘