لاک ڈاؤن میں نرمی اور رعایت کا اعلان اور درماندہ مہاجر مزدوروں کو انتظامیہ، رضاکاروں اور غیر سرکاری تنظیموں نے گھر پہنچانے کا سلسلہ شروع ہوا، تاہم مختلف ریاستوں سے جموں روزگار کمانے آئے سینکڑوں مہاجر مزدور ابھی بھی درماندہ ہیں۔
مہینوں سے جاری لاک ڈاؤن میں سرکار نے نرمی کا اعلان کیا اور مسافر بردار گاڑیوں کو چند شرائط پر چلنے کا اجازت دی گئی تاہم مختلف ریاستوں سے جموں آئے سینکڑوں مہاجر مزدور ابھی بھی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور گھر جانے کو ترس رہے ہیں
لاک ڈائون کی وجہ سے ملک بھر میں درماندہ مہاجر مزدوروں کی مشکلات اور پریشانیاں کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔
پچھلے تین مہینوں سے لاک ڈاؤن کی وجہ سے بیرون ریاستوں سے تعلق رکھنے والے درجنوں مہاجر مزدور جموں کشمیر کے مختلف اضلاع سے آکر جموں پہنچے تاہم یہاں بھی انکی مشکلات ختم نہیں ہوئیں۔
اترپردیش سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم تین مہینوں سے گھر جانے کے انتظار میں ہیں لیکن سرکار کی طرف سے کوئی مدد فراہم نہیں کی جارہی، ہم اپنے اہل و عیال سے دور ہیں، وہ بھی ہماری وجہ سے وہاں بے حد پریشان ہیں۔‘‘
درماندہ مہاجر مزدوروں نے انتظامیہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ’’سرکار ہمیں گھر پہنچانے کو لیکر سنجیدہ نہیں ہے، ہم اب اجازت نامہ حاصل کرنے کے لیے دفتروں کے چکر کاٹتے تھک گئے، تاہم ابھی تک اجازت نامہ ملا نہ ہمارے سفر کا کوئی بندوبست ہی کیا گیا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ان سے سفری خرچہ برداشت کرنے کو کہا جا رہا ہے جبکہ ’’ہماری جیب خالی ہے، تین مہینوں سے ایک پیسہ بھی نہیں کمایا، ہم کیسے سفر کا خرچہ برداشت کر سکتے ہیں۔‘‘
بے یار و مددگار، اہل خانہ سے دور اور دوسروں کے رحم و کرم پر منحصر درماندہ مہاجر مزدور مہینوں سے فٹ پاتھ اور سڑک کنارے کھلے آسمان تلے شب و روز گزار رہے ہیں۔