جموں و کشمیر کے دارالحکومت سرینگر کے عیدگاہ علاقے میں واقع ایک اسکول میں فائرنگ ہوئی، جس میں ایک اسکول کی پرنسپل اور ایک استاد ہلاک ہوئے۔ اس ہلاکت پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے جموں کشمیر کے لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا نے کہا کہ 'معصوم شہری ہلاکتوں میں ملوث افراد کو بخشا نہیں جائے گا'۔ انہوں نے کہا کہ 'سیکورٹی صورتحال کا جائزہ لیا گیا ہے اور فورسز کو الرٹ رہنے کی ہدایت دی گئی ہے'۔
انہوں نے عوام پر زور دیا کہ وہ صدیوں پرانی روایتی بھائی چارے کو زک پہنچانے کی کوششوں کو ناکام بنانے میں تعاون کریں'۔
راج بھون سرینگر میں میڈیا نمائندوں سے جموں کشمیر کے لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا نے کہا کہ 'عسکریت پسندوں کے حملوں میں ہلاک ہونے والے افراد کے اہل خانہ سے میری دلی ہمدردی ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'حد تو یہ ہے کہ خواتین کو بھی بخشا نہیں جا رہا ہے'۔ انہوں نے کہا کہ 'میں نے سیکورٹی صورتحال کا از سر نو جائز ہ لیا ہے اور جموں کشمیر میں شہریوں کی مکمل حفاظت کے لیے نئی حکمت عملی مرتب دی گئی ہے۔'
انہوں نے کہا کہ 'شہر سرینگر یا دیگر علاقوں میں ہوئی عام شہریوں کی ہلاکتوں میں ملوث کسی بھی افراد کو بخشا نہیں جائے گا اور جو بھی ملوث ہوں گے ان کو کیفر کردار تک جلد پہنچایا جائے گا'۔
انہوں نے کہا کہ 'سرحد کے اس پار بیٹھے لوگ جموں وکشمیر میں امن و امان سے خوش نہیں ہیں۔ گزشتہ کئی ماہ سے سیاحوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ اس لیے وہ امن کو خراب کرنے پر تلے ہیں۔'
قابل ذکر ہے کہ گزشتہ ہفتے سے وادی کشمیر میں مبینہ طور پر سات شہریوں کی ہلاکت ہوئی تھی، جن میں چار اقلیتی آبادی کے افراد شامل ہیں۔'
آج صبح نامعلوم عسکریت پسندوں نے سرینگر کے عیدگاہ علاقے میں ایک سرکاری اسکول کی پرنسپل اور ایک استاد کو ہلاک کیا جن کی شناخت ستندر کور اور دیپک چند کے طور پر ہوئی ہے۔
اس سے قبل گزشتہ روز نامعلوم عسکریت پسندوں نے سرینگر کے معروف فارمسسٹ ماکھن لال بندرو کو ان کی دکان کے قریب ہلاک کیا تھا اور اسی شام ایک غیر مقامی خوانچہ فروش کو بھی گولیاں مار کر ہلاک کیا تھا جس کا تعلق بھاگلپور سے بتایا گیا ہے۔ ان واقعات سے وادی کے اقلیتی آبادی میں خوف و تشویش پیدا ہوگئی ہے۔
- مزید پڑھیں: Srinagar School Firing: سرینگر کے اسکول میں فائرنگ، دو ٹیچرز ہلاک
- سرینگر: اساتذہ کی ہلاکت پر عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کا اظہار افسوس
- سرینگر کے اسکول میں فائرنگ پر سابق نائب وزیراعلیٰ کشمیر کا ردعمل
پولیس کے مطابق رواں برس میں 28 شہریوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے، جن میں پانچ اقلیتی اور دو غیر مقامی افراد شامل ہیں۔