جموں: 'یونائیٹڈ پیس الائنس' کے بینر تلے جموں میں ہفتہ کے روز چند سیاسی و سماجی جماعتوں کے رہنماؤں نے فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ کو لےکر فلسطین کے حق میں یکجہتی کا اعلان کرتے ہوئے جموں میں مہاراجہ ہری سنگھ پارک میں جمع ہونے کے لیے پوسٹرز شائع کیے تھے۔ تاہم پولیس نے اس پروگرام کو ناکام کرنے کی غرض سے انہیں گرفتار کیا تاکہ فلسطین کے حق میں ہونے والے اس پروگرام کو ناکام کیا جائے۔ پولیس اسٹیشن پیر میٹھا جموں سے رہائی کے بعد یونائیٹڈ پیس الائنس کے چیئرمین میر شاہد سلیم نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ خاص بات چیت کرتے ہوئے گرفتاریوں کی مذمت کی اور کہا کہ جس طرح سے انتظامیہ نے انہیں گرفتار کیا، یہ جمہوریت پر سوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے۔ میر شاہد سلیم نے کہا کہ ہفتہ کے روز ہم نے فلسطین کے مظلومین کے ساٹھ کھڑے ہوکر اظہار یکجہتی کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ تاہم پولیس نے اس کو ناکام بنانے کے لیے پہلے ہی ہمیں گرفتار کیا جو کہ قابل مذمت ہے۔ جب کہ ملک کی آزادی کے بعد سے ہی ہندوستان کا فلسطین کے تعلق سے یہ واضح موقف رہا ہے کہ سرزمین فلسطین پر اسرائیل کا قبضہ غاصبانہ ہے، اور اسے وہاں سے ہٹ جانا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں:
یہی سبب ہے کہ جب مغرب کی سازشوں سے اسرائیل وجود میں آیا تب بھی ہندوستان ان ممالک میں شامل تھا کہ جنھوں نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ خارجہ پالیسی کے تعلق سے یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ملک کی مختلف سیاسی پارٹیاں ماضی میں ایک دوسرے سے خواہ کتنی بھی سیاسی لڑائی لڑتی رہی ہوں لیکن خارجہ پالیسی کے تعلق سے ایک طرح کا قومی اتفاق رائے، پورے ملک کی سیاسی قیادت کے درمیان رہا ہے۔ اس معاملہ میں ملک نے پارٹی کی سیاست سے اوپر اٹھ کر دنیا کو یہ مثبت پیغام دیا ہے کہ ہندوستان میں کسی بھی پارٹی کی حکومت آئے لیکن اس کا اثر خارجہ پالیسی پر نہیں پڑتا۔ اس حکمت عملی کے سبب ہندوستان کی خارجہ پالیسی کی دنیا چند سال پیشتر تک معترف رہی ہے۔ جنتا پارٹی کی حکومت میں جب وزارت خارجہ کا قلم دان بی جے پی کے اٹل بہاری واجپئی کے پاس تھا تو انھوں نے بھی مسئلہ فلسطین کے تعلق سے صاف کہا تھا کہ اسرائیل نے فلسطین کی زمین غصب کی ہے، لہذٰا اسے ہر حال میں اسے خالی کرنا ہوگا۔
لیکن اسے کیا کہیے کہ حماس اور اسرائیل کی تازہ جنگ میں وزیر اعظم مودی نے کھلے طور پر اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہونے کی بات کہی اور حماس کے اسرائیل پر کیے گئے حملے پر کہا کہ وہ اس سے حیران ہیں۔ اگر حماس نے اسرائیل سے اپنی ہی سرزمین واپس لینے کے لیے اس پر ان حالات میں حملہ کیا کہ امریکہ سمیت عالمی برادری یا کم از کم مغربی ممالک کا بڑا حصہ فلسطین کے جائز مطالبہ کو نظر انداز کر رہا تھا، تو اس میں حیران ہونے کی کیا بات ہو سکتی ہے۔
میر شاہد سلیم نے مزید کہا کہ اسرائیل جب دل چاہتا ہے فلسطین کے کسی بھی علاقہ پر حملہ کر کے بے گناہ شہریوں کو قتل کر دیتا ہے۔ کبھی بھی فلسطین کے بچے کھچے علاقے میں نئی یہودی بستیاں بسانے کا اعلان کر دیتا ہے، اور دنیا اسے توسیع پسندی کے خطرناک کھیل سے روکنے کی سنجیدہ کوشش تک نہیں کرتی۔ اسرائیلی بربریت کو حق دفاع کہہ کر اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، اور اب جب کہ حماس نے اسرائیلی جارحیت کا منھ توڑ جواب دے کر دنیا کو حیران کر دیا ہے، اسرائیل کو اس کی اوقات بتا دی ہے تو دنیا کے دیگر دوغلے رہنماؤں کی طرح مودی کو بھی لگتا ہے کہ حماس کا عمل عسکریت پسندی ہے۔