جموں و کشمیر میں گذشتہ ایک برس میں بہت ساری تبدیلیاں رونما ہوئیں، سب سے پہلے 5 اگست 2019 کو دفعہ 370 کا خاتمہ اور پھر مرکزی حکومت کی جانب سے نوکریوں اور ترقی کے دعوے و وعدے۔
دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد سنہ 2019 کے آخر میں انتظامیہ نے جموں کے لوگوں کو خوش کرنے کے لیے ان کی دیرینہ مانگ پوری کی اور اعلان کیا کہ لکھنپور ٹول پلازہ پر ٹیکس اب نہیں لیا جائے گا، یہ آرڈر یکم جنوری 2020 سے نافذ ہوا، جس کے بعد جموں و کشمیر کی عوام اور کاروباریوں نے راحت کی سانس لی۔
آپ کو بتاتے چلیں کے جموں لکھن پور ٹول پلازہ سے سالانہ 1 ہزار کروڑ روپیہ وصول کیا جاتا تھا۔
لکھن پور ٹول پلازہ ختم ہونے کی خوشی جموں کی عوام میں کچھ ہی مہینوں تک ہی رہی اور اب ایک بار پھر حکومت کی جانب سے لکھن پور ٹول پلازہ کو بحال کر دیا گیا ہے اور 21 جولائی کے بعد سے اس ٹول پلازہ پر ٹیکس وصول کیا جارہا ہے۔
موجودہ وقت میں جموں میں 5 ٹول پلازہ ہیں، جن میں لکھن پور ٹول پلازہ، ٹھنڈی کھوئی ٹول پلازہ، بن ٹول پلازہ، مڈا ٹول پلازہ اور ناشری ٹول پلازہ شامل ہیں، اس کے ساتھ ہی حکومت نے چھٹے ٹول پلازہ کا بھی اعلان کر دیا ہے، جو جموں - پونچھ شاہراہ پر اکھنور میں قائم کیا جائے گا۔
جموں وکشمیر میں مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ ایک وقت میں جموں کو مندروں کے شہر سے جانا جاتا تھا لیکن اب اسے ٹول پلازاؤں کے شہر سے جانا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیے
حکومت کے دعوے کھوکھلے
مرکزی حکومت اور یوٹی انتظامیہ کی جانب سے مسلسل یہ دعوے کیے جاتے رہے ہیں کہ خطے میں اب تبدیلی آئے گی اور لوگوں کی ترقی ہوگی۔ لیکن زمینی صورتحال قدرے مختلف ہے، لوگوں کا کہنا ہے کہ حکومت و انتظامیہ صرف کھوکھلے دعوے اور وعدے کر رہی ہے۔
جموں و کشمیر میں دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد خطے میں معیشت پر بہت برا اثر پڑا ہے، ایسے میں نئے ٹول پلازہ قائم کرنا لوگوں کے لیے ایک بہت بڑا بوجھ مانا جارہا ہے۔
جموں و کشمیر میں جب پی ڈی پی کی حکومت تھی، اس وقت جموں کے ٹھنڈی کھوئی علاقے میں ٹول پلازہ قائم کرنے کا اعلان کیا گیا، جس پر بی جے پی کی جانب سے جم کر مخالفت کی گئی اور احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے، لیکن آج وہی مرکزی حکومت ہے جس کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں 5 ٹول پلازہ موجود ہیں، ان میں ٹھنڈی کوئی ٹول پلازہ بھی شامل ہے جہاں 20 اکتوبر 2019 سے ٹول ٹیکس وصول کیا جارہا ہے۔
آپ کو یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کے نیشنل ہائی وے فی رولس کے سیکشن 8 کے مطابق قومی شاہراہ پر 2 ٹول پلازہ کے درمیان 60 کلومٹر کا فاصلہ ہونا چاہیے، لیکن جموں میں ایسا نہیں ہے، جموں کے ٹھنڈی کھوئی علاقے میں موجود ٹول پلازہ اور نگروٹہ میں موجود بن ٹول پلازہ میں محض 37.4 کلو میٹر کا فاصلہ ہے جو نیشنل ہائی وے فی رولس کے سیکشن 8 کی سراسر خلاف ورزی ہے۔
غور طلب ہے کہ جموں میں کثیر تعداد میں ان ٹول پلازہ کی وجہ سے مقامی عوام کو خاصہ نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے، اور لوگوں کا کہنا ہے کہ آخر ہم ایک ہی سڑک کے لیے کتنا ٹیکس ادا کریں۔
آئیے اب جانتے ہیں کہ جموں و کشمیر میں دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد کیا واقعی کوئی تبدیلی آئی ہے؟
اس کے جواب میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ خطے میں تبدیلی اس طرح سے آئی ہے کہ معیشت درھم برھم ہوگئی ہے جس سے لاکھوں لوگوں کا روزگار چھن گیا ہے۔
کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیرمیں دفعہ 370 کے خاتمے کے پہلے چار مہینوں میں ہی 17 ہزار 878 کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے، وہیں ای کامرس سیکٹر کو تقریباً 8 ہزار کروڑ روپے کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
جموں و کشمیر کو سیاحت کی وجہ سے بھی کافی فائدہ ہوتا ہے، ایسے میں اگر سیاحت کی بات کی جائے تو خطے میں کل 15 ہزار کروڑ روپے کا نقصان ہوا اور 4 لاکھ 96 ہزار افراد نے اپنی نوکریاں کھوئی ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
گاندربل: سیاحت ٹھپ، مقامی افراد مشکلات سے دوچار
موجودہ وقت میں جموں و کشمیر کو اب تک دفعہ 370 کے پیش نظر لاک ڈاؤن اور پھر کورونا وائرس کے باعث لاک ڈاؤن کی وجہ سے 40 ہزار کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔
واضح رہے کہ کشمیر میں دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد مکمل لاک ڈاؤن ہے، جس کی وجہ سے جموں کے کاروباریوں اور ہر طبقے سے منسلک لوگوں کو نقصان ہوا ہے، کیونکہ کسی نہ کسی طریقے سے جموں کے لوگوں کا روزگار کشمیر سے وابستہ ہے۔
ایسے میں اب جموں میں ٹول پلازاؤں کی وجہ سے لوگ بے حد پریشان ہیں کیونکہ لوگوں کا کاروبار ٹھپ ہے لیکن انتظامیہ و مرکزی حکومت مسلسل ٹیکس وصول کر رہی ہے۔
جموں کی عوام نے گذشتہ مہینوں میں بے بس ہو کر مرکزی اور یوٹی انتظامیہ کے خلاف احتجاج بھی کیے ہیں۔
حال ہی میں لکھنپور ٹول پلازہ کے بعد جموں سے بی جے پی رہنماوں کی جانب سے مرکزی وزیر ٹرانسپورٹ نتن گٹکری کو خط لکھا گیا ہے جس میں نئے ٹول پلازہ قائم کرنے پر لوگوں کی ناراضگی کا اظہار کیا گیا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہوگا کہ مرکزی حکوت ٹول پلازاؤں پر کیا فیصلہ لیتی ہے اور جموں و کشمیر میں ترقی کی راہیں کب ہموار ہونگی؟۔