جموں:دنیا میں والدین کے لیے بچے سب سے بڑی ںعمت ہوتے ہیں اور بچوں کے لیے والدین کی محبت بے لوث اور بے پناہ ہوتی ہے۔بچوں کی دیکھ بھال کے لیے والدین اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں اور ان کے سُکھ اور خوشی کے لیے والدین اپنی تمام خواہشات قربان کرتے ہیں۔ بڑھاپے میں والدین کے لیے یہی اولاد سہارہ بنتے ہیں اور ان کی ہر خوشی کے لیے اولاد بھی پیش پیش رہتے ہیں۔
جموں کے گجر نگر علاقہ سے تعلق رکھنے والے محمد یاسین اور ان کی اہلیہ زرینہ آج کے دور میں ایک ایسی مثال ہیں جنہوں نے اپنے بچوں کی خوشی کے لیے سب کچھ قربان کر دیا۔
دراصل زرینہ کو اللہ نے پانچ اولاد سے نوازا ہے جن میں ایک بیٹی اور چار بیٹے ہیں مگر بد قسمتی سے تین بیٹے پیدائش سے نابینا تھے۔ اگرچہ زرینہ نے ان نابینا بچوں کی پرورش کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی اور آج بھی یہ جوان سال نابینا بیٹے اپنے والدین پر ہی منحصر ہیں۔زرینہ بیگم کا کہنا ہے کہ ان کے تین بیٹے پیدائشی طور پر نابینا ہیں۔ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ ان کی آنکھوں کا علاج نہیں ہوپائے گا۔ Three Visually Impaired Brothers of Jammu
یہ بھی پڑھیں:
زرینہ کہتی ہے کہ ان کے شوہر مزدوری کرتے تھے اور ان کی آمدنی بھی اتنی نہیں تھی کہ ان بچوں کی بیماری کے اخراجات کو برداشت کر سکتے اور آج وہ بڑھاپے کی وجہ سے مزدوری نہیں کرسکتے جس کی وجہ سے ان کے بیٹوں کا سارا بوجھ ان پر آگیا ہے۔ان کے نابینا بیٹے بھی عام لوگوں کی طرح شوق رکھتے ہیں مگر ان کے اہلخانہ کی اتنی کمائی نہیں ہے کہ ان کے شوق پورے کر سکیں۔
منظور احمد نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں بھی شوق ہے کہ وہ دنیا دیکھیں لیکن وہ نابیناہ ہیں، انہوں نے کہا کہ ان کے عمر رسیدہ والدین اس وقت بھی ان کی خدمت کرتے ہیں جب کہ انہیں ان کی خدمت کرنی چاہیے تھی۔منظور کو گلوکار محمد رفیع اور مکیش کے گانے بہت اچھے لگتے ہیں اور جب بھی کوئی مہمان ان کے گھر آتا ہے تو منظور ان کے لئے گانا گاتے ہیں۔
وہیں دوسرے نابینا بھائی سجاد احمد مذہبی معاملات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ قرآن کی تلاوت کرنا اور نعت خوانی کرنا ان کا پسند دیدہ عمل ہے۔انہوں نے کہا اللہ نے ان تینوں بھائیوں کو نابینا پیدا کیا جس کی وجہ سے ان کے والدین کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مزید پڑھیں:
ان کے والد محمد یاسین نے بتایا کہ ان کی پرورش اور علاج کرنے میں ان پر تقربیاً 7 سے آٹھ لاکھ روپے تک قرضہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کا مکان بھی آگ کی زد میں آکر خاکستر ہو گیا تھا۔
اب اسے وقت اور قدرت کا کھیل کہیں یا حالات کی ستم ظریفی لیکن اس جوڑے کی حالت دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ کچھ لوگوں کو صرف دکھ درد اور ٹھوکریں جھیلنے کے لیے ہی جنم دیا گیا ہے۔