مسرت زہرا نے ای ٹی وی بھارت اردو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 'یہ ایووارڈ ہمارے کام کی پہچان ہے۔ ہم نے ہر حالات میں شفاف طریقے سے رپورٹنگ کی اور جو حقیقت تھی، اس کو پیش کرنے کی کوشش کی۔'
انہوں نے کہا کہ 'میرے خلاف یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج کیا گیا اور پولیس نے مجھے کبھی بھی بطور صحافی تسلیم نہیں کیا۔'
انہوں نے کہا کہ 'آج یہ ایوارڈ اپنے آپ میں ایک پیغام ہے جس کے ذریعہ آپ ہمیں (صحافیوں کو) خاموش نہیں کر سکتے۔'
انہوں نے کہا کہ 'یہ ایوارڈ کشمیر میں کام کرنے والی تمام خواتین صحافیوں کو خراج تحسین ہے۔'
اپنے کام کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'فی الحال میں تین چار طویل مدتی منصوبوں پر کام کر رہی ہوں۔ ان میں سے ایک پر پچھلے چار سالوں سے کام کر رہی ہوں اور اب بھی یہ منصوبہ مکمل نہیں ہوا ہے۔ تصور کریں کہ جب پروجیکٹ کچھ مکمل ہوتا ہے۔ کچھ بڑا نکل آتا ہے اور پھر ذہن دوسری طرف متوجہ ہوجاتا ہے۔ اور اس عرصے کے دوران آپ کو صرف اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے روزانہ کی زندگی کی رپورٹنگ کرنی ہوگی۔'
سرینگر سے تعلق رکھنے والی مسرت زہرا نے اپنی تصاویر میں کشمیر میں جاری نامساعد و نا گفتہ بہ حالات اور اس تنازعے کی وجہ سے مقامی لوگوں پر مرتب ہونے والے اثرات کی عکاسی کی ہے۔
خیال رہے کہ مسرت زہرا کو دیا جانے والا یہ ایوارڈ جرمن فوٹو جرنلسٹ انجا نڈرنگھاؤس کی یاد میں قائم کیا گیا ہے جو سنہ 2014 میں افغانستان میں ہلاک ہو گئی تھیں۔ بیس ہزار امریکی ڈالر پر مشتمل یہ ایوارڈ ہر سال آئی ڈبلیو ایم ایف کے ذریعے ان بہادر خواتین صحافیوں کو دیا جاتا ہے جو شورش زدہ یا متنازعہ خطوں میں پیشہ وارانہ خدمات انجام دے رہی ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ مسرت زہرا کے خلاف حال ہی میں جموں و کشمیر پولیس نے یو اے پی اے ایکٹ کے تحت ایک مقدمہ درج کیا تھا جس کی مقامی و بین الاقوامی سطح پر صحافتی حلقوں نے مخالفت کی اور اسے کشمیر میں صحافیوں کو دبانے سے تعبیر کیا تھا۔ تاہم جموں و کشمیر پولیس نے انہیں بعد میں گرفتار نہیں کیا۔