درخواست گزاروں میں سے ایک کی جانب سے پیش سینیئر وکیل دنیش دویدی نے جسٹس این وی رمن، جسٹس سنجے کشن کول، جسٹس آر سبھاش ریڈی، جسٹس بی آر گووئي اور جسٹس سوريہ كانت کی آئینی بنچ کے سامنے دلیل دی کہ ہندوستانی آئین کی دفعہ 370 عارضی تھی اور یہ جموں کشمیر کے آئین کے وجود میں آنے تک مؤثر تھی۔
انہوں نے دلیل دی کہ جموں کشمیر کے آئین کے نفاذ کے بعد صدر کو آرٹیکل 370 کے تحت حاصل اختیارات کو استعمال نہیں کرنا چاہئے تھا۔
مسٹر دویدی نے جموں کشمیر کے ہندوستان میں ضم ہونے سے متعلق دستاویزات (انسٹرومنٹ آف اکسیشن آف جموں و کشمیر) کے آرٹیکل چھ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس آرٹیکل کے تحت جموں کشمیر کو خودمختاری دی گئی ہے۔
انہوں نے دلیل دی کہ مرکزی حکومت کو جموں کشمیر کے معاملے میں قانون بنانے کے محدود حقوق حاصل ہے۔ دفعہ 370 مرکز اور جموں و کشمیر کے درمیان ایک رابطہ تھا۔
انہوں نے کہا 'جموں و کشمیر کی حکومت صرف انسٹرومنٹ آف اکسیشن اور ریاست کے الگ تھلگ آئین کے ذریعے ہی کی جا سکتی تھی'۔
سماعت کے آغاز میں ان درخواستوں کو وسیع بنچ کے سپرد کئے جانے کا معاملہ عدالت میں اٹھا۔
مزید پڑھیے:-
سی اے اے پر آج سپریم کورٹ میں سماعت
سونیا اور پرینکا رائے بریلی کے دو روزہ دورے پر
اے ایم یو طلبأ کا سی اے اے و این آر سی کے خلاف احتجاجی مارچ
مسٹر دویدی اور سینئر وکیل سنجے پاریکھ نے درخواستوں کو بڑی بنچ کے سپرد کرنے کی عدالت سے درخواست کی، جس کی اٹارني جنرل کے کے وینو گوپال نے پرزور مخالفت کی۔ مسٹر وینو گوپال نے کہا 'درخواستوں کو بڑی بنچ کو بھیجنے کی ضرورت نہیں ہے'۔
ایک درخواست گزار کی جانب سے پیش سینئر وکیل راجیو دھون نے 'وہ مسٹر دویدی اور مسٹر پاریکھ کی دلائل سننے کے بعد ہی کچھ بولیں گے'۔
اس کے بعد عدالت نے معاملے کو بڑی بنچ کے سپرد کرنے کے مسئلہ پر ہی مسٹر دویدی کو بحث کرنے کی اجازت دی۔ معاملے کی سماعت آج بھی جاری رہے گی۔