ٹرمپ نے بدھ کے روز ہند اور چین کے درمیان ثالثی کرنے کی پیشکش کی تھی تاہم آج چین کی فارن منسٹری کے ترجمان ضلعو لیجیان نے پیشاور کو ٹھکراتے ہوئے دعوی کیا کہ " بھارت اور چین اپنے مسئلے بات چیت سے خود سمجھا سکتے ہیں۔ انہیں کسی اور کی ضرورت نہیں۔"
وہیں دوسری جانب بھارت کی وزارت دفاع کے ایک سینئیر افسر نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ " حقیقی لائن آف کنٹرول پر صورتحال جو کی تو بنی ہوئی ہے۔ دونوں طرف سے افواج کی تعیناتی میں اضافہ ہی دیکھا جا رہا ہے۔"
ان کا مزید کہنا تھا کہ "ایک جانب چین معاملہ سلجھانے کی بات کر رہا ہے وہیں دوسری جانب حقیقی لائن آف کنٹرول پر تعمیری کاموں کے ساتھ ساتھ لڑاکو جہازوں کی تعیناتی میں اضافہ کر رہا ہے۔ ہمارا موقف صاف ہے جب تک کی چین ہمارے علاقے سے واپس نہیں جاتا ان سے کوئی بھی بات چیت ہونا ممکن نہیں۔"
ان کا مزید کہنا تھا کہ "اگر چین کو لگتا ہے کہ وہ ایگریشن سے ہم پر دباؤ ڈال سکتے ہیں تو غلط فہمی میں جی رہے ہیں۔ بھارت ان کی جانب سے ہورہی ہر کاروائی کا ڈٹ کر مقابلہ کرسکتا ہے اور اگر ضرورت پڑی تو کرے گا بھی۔ احتیاطی طور بھارتی افواج کے اہلکاروں کو پاکی کی لائن آف کنٹرول پر تعینات کیا گیا ہے اور مزید اہلکاروں کو وہاں بھیجا جا رہا ہے۔"
لداخ میں رواں مہینے کی پانچ تاریخ سے حالات کشیدہ بنے ہوئے ہیں۔ چین لگاتار بھارت اور چین کے درمیان سرحد پر تعینات انکی سپاہیوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ اسلحہ اور بارود اکھٹا کرتا جا رہا ہے۔ وہیں پاکستان کی جانب سے بھی حد بندی معاہدے کی خلاف ورزی میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ چینی گزشتہ روز بھارت میں موجود ان کے شہریوں کو واپس اپنے ملک لے جانے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔
رواں مہینے کی 22 تاریخ کو بھارتی فوج کے صدر جنرل مقتل ناروانے نے لداخ کا دورہ کرکے صورتحال کا جائزہ لیا تھا۔
لداخ: حقیقی لائن آف کنٹرول پر صورتحال جوں کی توں - china_standoff
جہاں چین نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ثالثی کی پیشکش کو ٹھکرایا ہے وہیں لداخ میں زمینی سطح پر کوئی تبدیلی دیکھنے کو نہیں مل رہی ہے اور ہند چین کے درمیان حالات کشیدہ بنے ہوئے ہیں۔
ٹرمپ نے بدھ کے روز ہند اور چین کے درمیان ثالثی کرنے کی پیشکش کی تھی تاہم آج چین کی فارن منسٹری کے ترجمان ضلعو لیجیان نے پیشاور کو ٹھکراتے ہوئے دعوی کیا کہ " بھارت اور چین اپنے مسئلے بات چیت سے خود سمجھا سکتے ہیں۔ انہیں کسی اور کی ضرورت نہیں۔"
وہیں دوسری جانب بھارت کی وزارت دفاع کے ایک سینئیر افسر نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ " حقیقی لائن آف کنٹرول پر صورتحال جو کی تو بنی ہوئی ہے۔ دونوں طرف سے افواج کی تعیناتی میں اضافہ ہی دیکھا جا رہا ہے۔"
ان کا مزید کہنا تھا کہ "ایک جانب چین معاملہ سلجھانے کی بات کر رہا ہے وہیں دوسری جانب حقیقی لائن آف کنٹرول پر تعمیری کاموں کے ساتھ ساتھ لڑاکو جہازوں کی تعیناتی میں اضافہ کر رہا ہے۔ ہمارا موقف صاف ہے جب تک کی چین ہمارے علاقے سے واپس نہیں جاتا ان سے کوئی بھی بات چیت ہونا ممکن نہیں۔"
ان کا مزید کہنا تھا کہ "اگر چین کو لگتا ہے کہ وہ ایگریشن سے ہم پر دباؤ ڈال سکتے ہیں تو غلط فہمی میں جی رہے ہیں۔ بھارت ان کی جانب سے ہورہی ہر کاروائی کا ڈٹ کر مقابلہ کرسکتا ہے اور اگر ضرورت پڑی تو کرے گا بھی۔ احتیاطی طور بھارتی افواج کے اہلکاروں کو پاکی کی لائن آف کنٹرول پر تعینات کیا گیا ہے اور مزید اہلکاروں کو وہاں بھیجا جا رہا ہے۔"
لداخ میں رواں مہینے کی پانچ تاریخ سے حالات کشیدہ بنے ہوئے ہیں۔ چین لگاتار بھارت اور چین کے درمیان سرحد پر تعینات انکی سپاہیوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ اسلحہ اور بارود اکھٹا کرتا جا رہا ہے۔ وہیں پاکستان کی جانب سے بھی حد بندی معاہدے کی خلاف ورزی میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ چینی گزشتہ روز بھارت میں موجود ان کے شہریوں کو واپس اپنے ملک لے جانے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔
رواں مہینے کی 22 تاریخ کو بھارتی فوج کے صدر جنرل مقتل ناروانے نے لداخ کا دورہ کرکے صورتحال کا جائزہ لیا تھا۔