سنہ 2018 کے اگست ماہ میں نوجوان کشمیری صحافی آصف سلطان کو پولیس نے حراست میں لیا۔
کلونی فاؤنڈیشن فار جسٹس نے آصف کے مقدمے کی سماعت کی نگرانی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
سرینگر کے بٹہ مالو علاقے کے رہنے والے آصف سلطان ایک انگریزی جریدے "کشمیر نیریٹر" کے ساتھ منسلک تھے۔
آصف کی شادی 2016 میں ہوئی تھی اور ان کی تقریباً تین سالہ بیٹی بھی ہے۔
آصف کو اکتوبر 2019 میں انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ سے نوازا گیا۔
آصف کے والد محمد سلطان نے کئی بار حکومت سے ان کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
پولیس کا دعویٰ ہے کہ آصف کو پیشہ وارانہ خدمات انجام دینے کے لیے نہیں بلکہ عسکریت پسندوں کی حمایت اور انہیں پناہ دینے کے لیے گرفتار کیا گیا۔
گرفتاری سے قبل آصف نے حزب المجاہدین کے ہلاک شدہ کمانڈر برہان وانی پر ایک تحقیقی مضمون لکھا تھا اور ان کے کئی ساتھیوں کے ساتھ ملاقات کی تھی۔
باور کیا جاتا ہے کہ یہی مضمون ان کی گرفتاری کی وجہ بنا حالانکہ پولیس نے اس بات سے انکار کیا ہے۔
آصف کی رہائی سے متعلق 400 شخصیات نے وزیر اعظم نریندر مودی کے نام ایک مکتوب بھی لکھا ہے۔