سرینگر میں مقیم وزارت دفاع کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل عمران موسوی کے مطابق اجلاس میں اس بات پر تبادلہ خیال کیا گیا کہ گزشتہ چھ مہینوں میں سکیورٹی فورسز کے ساتھ ساتھ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے محکموں نے نہ صرف کورونا بلکہ عسکریت پسندی اور تشدد پر بھی قابو پا لیا۔
اس میٹنگ میں خصوصی گفتگو ہوئی کہ عسکریت پسندوں کی بھرتی روکنے اور مشکوک گاڑیوں کے استعمال کو روکنے کے لئے بطور مووی آئی ای ڈیز (یعنی پلوامہ حملے جیسے واقعات) پر بھی گہرائی سے تبادلہ خیال کیا گیا۔ سڑک کے کنارے تجاوزات ہٹانے پر بھی تبادلہ خیال ہوا تاکہ سکیورٹی فورسز کے قافلوں کو کوئی خطرہ نہ ہو۔
فوج کی جانب سے کنٹرول لائن پر صورتحال کے بارے میں معلومات دیتے ہوئے بتایا گیا کہ پاکستان کی جانب سے فائرنگ اور گولہ باری کو روک دیا گیا ہے لیکن پچھلے دو ماہ کے دوران پاکستانی فوج کی سرگرمیاں کنٹرول لائن کی دوسری طرف یقینی طور پر تیز ہوگئی ہیں۔
انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اِن پُٹ کے مطابق ایل او سی پر پاکستان کی جانب سے شدت پسندی کے لانچ پیڈ اور عسکری سرگرمیاں جاری ہیں۔ ایسی صورتحال میں کنٹرول لائن کے ساتھ ساتھ صورتحال پر بھی بہت گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان سے منشیات اور اسلحہ کی اسمگلنگ ابھی بھی جاری ہے۔
اجلاس میں شدت پسندانہ حملوں اور مجرمانہ واقعات میں فرق کرنے کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر پاکستان اور علیحدگی پسندوں کے پروپیگنڈوں پر بھی نگاہ رکھنے پر زور دیا گیا تاکہ وادی کشمیر میں امن و امان برقرار رکھا جا سکے۔