چودہ فروری 2019 کو کشمیر کے پلوامہ میں ایک خودکش حملہ ہوا تھا جس میں چالیس سی آر پی ایف اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔ پلوامہ حملہ آج ان جوانوں کے لواحقین کے ذہنوں میں تازہ ہے جو اس حملے میں مارے گئے تھے لیکن اس حملے میں ہلاک ہونے والے نصیر احمد کی اہلیہ شاذیہ کوثر کا کہنا ہے کہ 'وہ اس سانحہ کے بعد در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔'
شاذیہ کا کہنا ہے کہ 'ان کا دیور سراج الدین انہیں بچوں سے ملنے نہیں دیتا اور اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کر کے سبھی بینک اکاونٹس بند کروادئے ہیں جس کی وجہ سے ان کی زندگی اجیرن بن گئی ہے۔'
سراج الدین، جو شاذیہ کے دیور ہے، نے عدالت میں نصیر کے بچے کی سرپرستی کا ایک مقدمہ دائر کیا تھا جس پر عدالت نے انہیں بچے کی حفاظت کرنے کا حکم دیا تھا۔ تاہم نصیر کی اہلیہ کا کہنا ہے کہ 'سراج عدالت کے حکمنامے کا غلط استعمال کر رہا ہے۔'
شاذیہ کی والدہ گلشن بانو نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ 'ان کے بچوں کو ماں کے سپرد کیا جائے تاکہ وہ ان کا خیال رکھے۔'
شاذیہ کی طرف سے کیس کی پیروی کرنے والی وکیل مہرخ سعدین نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ 'حکومت و انتظامیہ کو اس سلسلہ میں مداخلت کر کے شاذیہ کی مدد کرنی چاہیے۔'
انہوں نے کہا کہ 'پلوامہ حملے کے بعد متعدد سیاسی و سماجی انجمنوں نے انہیں مدد کی یقین دہانی کی تھی لیکن آج کوئی سامنے نہیں آرہا ہے۔'
انہوں نے لیفٹیننٹ گورنر انتظامیہ سے اپیل کی ہے کہ 'وہ ان کی مدد کریں تاکہ شاذیہ اپنے بیٹے اور بیٹی کے ساتھ خوف سے آزاد زندگی گزار سکیں۔'