کشمیر میں گزشتہ برس نومبر میں ہوئی غیر متوقع برفباری سے سیب باغات کو شدید نقصان ہوا تھا۔
اس برفباری کو سرکار نے "قدرتی آفت" قرار دیتے ہوئے باغبانوں کو بھر پور معاوضہ دینے کا وعدہ بھی کیا تھا۔ برفباری سے کئی سیب درخت جڑوں سے ہی اکھڑ گئے اور اکثر باغات تباہ ہوگئے۔
جموں وکشمیر انتظامیہ نے اپنے تخمینہ کے مطابق کہا تھا کہ 53000 ہیکٹرز باغات برف باری سے متاثر ہوگئے تھے جن میں 500 کروڑ روپئے مالیت کا نقصان ہوا تھا۔
لیکن باغ مالکان نے انتظامیہ کے تخمینے کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں 5000 کروڑ روپئے مالیت کا نقصان ہوگیا۔
پانچ ماہ بعد جموں و کشمیر لیفٹینٹ گورنر انتظامیہ نے معاوضے کا اعلان تو کیا لیکن باغ مالکان اس کو "مذاق" قرار دے رہے ہیں۔
حکومت نے فی کنال اراضی کے مطابق باغ مالکان کو 900 سے 2000 روپیے دینے کا اعلان کیا ہے۔
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے ایک باغ مالکان نے کہا انکو توقع تھی کہ سرکار انکے نقصان کا معقول معاوضہ ادا کرے گی، لیکن 900 روپئے فی کنال دینا انکے ساتھ مذاق ہے۔
ادھر اس معاملے پر بات کرتے ہوئے محکمہ باغبانی کے ڈپٹی ڈائریکٹر جاوید احمد کا کہنا ہے کہ جو پیسے سرکار نے باغبانوں کو ادا کرنے کا اعلان کیا ہے وہ معاوضہ نہیں بلکہ "ریلیف" ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت معقول معاوضے کے عوض باغبانوں کیلئے باغبانوں کیلئے اسکیمیں بنا رہی ہے جس سے باغبانوں کو فایدہ ہوگا۔
باغباںوں کی شکایات اپنی جگہ اور حکومت کے دعوے اپنی جگہ۔ اب دیکھنے والی بات یہ ہوگی کہ حکومت اپنے دعوؤں پر کتنا عمل کرتی ہیں۔