محرم الحرام کا متبرک مہینہ ایک روز بعد سایہ فگن ہو رہا ہے۔ اس سلسلے میں جموں و کشمیر کے دارالحکومت سرینگر اور دیگر اضلاع میں تیاریاں جاری ہیں۔
گلی، کوچوں اور شاہراہوں پر سیاہ رنگ کے پرچم اور بینرز چسپاں کئے جارہے ہیں۔ امام باڑے اور عزا خانے سجائے جارہے ہیں۔ تاہم گزشتہ برسوں کے برعکس اس سال محرم الحرام بالکل مختلف نوعیت کا ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں
نئے اسلامی سال کی آمد پر اوقاف جامع کی اہل اسلام کو مبارکباد
کورونا وائرس کے بڑھتے پھیلاؤ کی وجہ سے بڑی اجتماعی سطح کی مجالس اور جلوس منسوخ کئے جارہے ہیں۔ تاہم چھوٹی سطح کی مجالس کا اگر انعقاد بھی ہوگا تو اس میں باضابطہ طور پر کووڈ 19 کے اصولوں کو ملحوظ خاطر رکھا جائے گا۔
کئی انجمنوں کی جانب سے پہلے ہی روایتی طرز کی مجالس کو منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
کورونا وائرس: مجالس کے دوران رہنما خطوط کی پاسداری ضروری
تاہم عزاداروں کا کہنا ہے کہ وہ پیغامِ کربلا کو عام کرنے اور مقصد قیام امام حسین علیہ السلام کو سمجھنے اور دوسروں تک پہنچانے کے لئے متبادل طریقے بھی اپنا رہے ہیں۔
سیاہ پرچم اور پوسٹرس کو چسپاں کرنا، انٹرنیٹ پر عشرہ مجالس کو براہ راست نشر کرنا، محدود پیمانے پر اور گائیڈ لائنز کو اپناتے ہوئے مجالس اور جلوسوں کا اہتمام کرنا اس میں قابل ذکر ہے۔
جموں و کشمیر کے سب سے بڑے امام باڑہ آیت اللہ یوسف امام باڑہ میں لاکھوں کی تعداد میں عزادار جلوس عزا کے دوران جمع ہوتے ہیں۔ تاہم اس سال کورونا وائرس سے بچنے کے لئے انجمن شرعی شیعیان نے اس طرح کے بڑے اجتماعات کو منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
امام باڑے میں موجود ایک رضا کار نے ای ٹی وی کو بتایا ' اگرچہ ہم نے سوشل ڈسٹنسنگ کو قائم رکھنے کی غرض سے عزاداروں کے بیٹھنے کے لئے ایک یا دو میٹر تک کی دوری کے لئے باضابطہ بیٹھنے کا انتظام کیا ہے۔ تاہم کورونا وائرس کے دور میں عزاداران امام عالی مقام کے جم غفیر کو دیکھتے ہوئے مجلسوں کو کافی محدود کرنا اور زیادہ تر مجلسوں کو اور پیغامات کو آن لائن سننا، گھروں کے اندر مجلسوں کا انعقاد کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔'
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کئی دیگر نوجوانوں کا بھی کہنا تھا کہ اس دفعہ عزاداری کی مجالس اور جلوسوں کا اہتمام کرنے کے دوران ایس او پیز کو اپنانے کی سخت ضرورت ہے کیونکہ عزاداری کو بھی بچانے کے ساتھ عزادار کو بھی بچانا لازم ہے۔