5 اگست کو دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد بندشوں اور امتناعی احکامات سے کارخانوں میں مختلف اشیاء کی پیداوار میں کافی کمی رونما ہوئی ہے اور دکانوں و کاروباری اداروں کے لگاتار بند رہنے سے بازاروں میں ڈیمانڈ اور سپلائی کا توازن بھی متاثر ہوا ہے۔
صنعتی شعبہ سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ 'بندشوں کے سبب کشمیر کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، اور صنعتی کارخانوں سے وابستہ لوگوں کا روزگار بھی متاثر ہورہا ہے'۔
لوگوں کے مطابق بندشوں کا براہ راست اثر چھوٹے بڑے کارخانوں پر نمایاں ہے اور اس وجہ سے کشمیر کے اضلاع میں واقع اکثر صنعتی کارخانوں جیسے سیمینٹ پلانٹز میں بھی کام کاج ٹھپ پڑا ہے۔
اگرچہ سرکار کا دعویٰ ہے کہ بندشیں ہٹائی گئی ہیں، تاہم 5 اگست سے جو اضافی نیم فوجی دستے بازاروں اور دیگر قصبہ جات میں تعینات کئے گئے تھے وہ ابھی بھی بدستور تعینات ہیں۔
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے صدر شیخ عاشق نے کہا کہ 'موجودہ صورتحال کی وجہ سے زندگی کا ہر ایک شعبہ متاثر ہوا ہے اور کشمیر کی معیشیت کو آٹھ سے دس ہزار کروڑ روپے کے نقصان سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ وہیں مواصلاتی خدمات پر جاری پابندی نے بھی رہی سہی کسر پوری کردی ہے۔'
کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے مطابق 5 اگست سے جاری غیر یقینی صورتحال بالخصوص مواصلاتی پابندی کی وجہ سے کشمیر کو اب تک 10 ہزار کروڑ روپے کے نقصان سے دوچار ہونا پڑا ہے۔