امریکہ کی نیویارک سٹی میں بھارت کے اعلیٰ سفارت کار سندیپ چکرورتی نے ایک نجی میٹنگ میں کہا تھا 'اگر اسرائیل اپنے تشکیل دیے گئے ماڈل کے ذریعے یروشلم میں لوگوں کو بسا سکتا ہے، تو کشمیر میں بھی اس ماڈل کے ذریعے کشمیری پنڈتوں کو واپس ان کی جگہ دلائی جا سکتی ہے'۔ اس متنازعہ بیان پر بین الاقوامی سطح پر شدید نکتہ چینی کی گئی۔
اس بیان کے تناظر میں ای ٹی وی بھارت نے آج کشمیری مائگرنٹ اسوسین کے صدر آر کے بھٹ سے ردعمل جاننے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم کسی کا منہ بند نہیں کرسکتے بلکہ جو لوگ کشمیر جانا چاہیتے ہیں ان لوگوں کی ہی رائے لی جائے کہ کس طریقے سے کشمیر واپسی ممکن ہوپائے گی۔ انہوں نے کہا ہم چاہتے ہیں کہ اپسی بھائی چارہ بنا کر کشمیری مسلمان بھائیوں کے ساتھ مل جل کر عزت کے ساتھ ہماری واپسی ہو۔
واضح رہیں سندیپ چکرورتی نے کشمیری پنڈتوں کے ساتھ میٹنگ میں اسرائیلی اور یہودی مسئلے پر ایک اور سوال کا جوب دیتے ہوئے کہا تھا کہ 'ان لوگوں نے اپنی تہزیب کو اپنی زمین پر 2000 سال سے زندہ رکھا ہوا تھا اور وہ واپس وہاں گئے، مجھے لگتا ہے کہ اسی طرح ہم سب لوگوں نے کشمیری تہذیب کو بچا کر رکھا ہوا ہے، کشمیری تہذیب بھارتی تہذیب ہے اور ہندو تہذیب ہے، ہم میں سے کوئی بھی بھارت کو کشمیر کے بغیر نہیں سوچ سکتا'۔