مرکزی حکومت کی جانب سے ریاست جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت دفعہ 370کی منسوخی کے بعد جہاں گورنر انتظامیہ کی جانب سے سخت ترین بندشیں عائد کی گئیں وہیں علیحدگی پسند رہنماؤں سمیت مین اسٹریم کی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں و کارکنان کی وسیع پیمانے پر گرفتاریاں بھی عمل میں لائی گئیں۔
اپنے عزیزوں سے ملاقات اور ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے وادی کشمیر کے مختلف اضلاع سے میلوں کا سفر بندشوں کے بیچ اور پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم موجودگی میں طے کرکے قیدیوں کے رشتہ دار سرینگر کے سنٹرل جیل کے باہر صبح سویرے سے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں۔
ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے انتظار میں بیٹھے رشتہ داروں نے کہا کہ ’’کشمیر کے موجودہ حالات میں سفر کرنا بے حد مشکل ہے، اسکے باوجود محض چند منٹوں کی ملاقات کے لیے ہمیں گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’’وادی کشمیر میں جاری غیر یقینیت کے دوران پبلک ٹرانسپورٹ سڑکوں سے غائب ہے ایسے میں ہر ایک شخص کے پاس نجی گاڑی نہیں ہے اور ایسے افراد کے لیے دور دراز کے اضلاع سے سرینگر کے سنٹرل جیل پہنچنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔‘‘
اپنی پریشانیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے قیدیوں کے رشتہ داروں کا کہنا تھا کہ ’’حالات و سفری صعوبتیں برداشت کرکے سویرے سے انتظار و قطار میں بیٹھنے کے باوجود ہمیں شاید شام کو 10سے 15منٹ تک کے لیے ہی ملاقات نصیب ہوگی۔‘‘
قابل ذکر ہے کہ دفعہ 370کی منسوخی کے ساتھ ہی وسیع پیمانے پر گرفتاریوں کے باعث کشمیر کے جیل قیدیوں سے بھرے پڑے ہیں۔ اسکے علاوہ بعض سرکاری عمارتوں، ہوٹلوں کو بھی عارضی قیدخانوں کے طور پر استعمال کرنے کے بعد بھی جگہ کی قلت کے پیش نظر متعدد قیدیوں کو وادی سے باہر آگرہ اور جودھپور جیلوں میں منتقل کیا گیا ہے۔