تاہم 5اگست کو مرکزی سرکار کی جانب سے ایک ایسا اعلان کیا گیا جس سے جموں و کشمیر کے نشیب و فراز میں ہلچل پیدا ہوئی، جس سے جموں و کشمیر میں زندگی کا پہیا جیسے تھم سا گیا۔
مرکزی سرکار نے پانچ اگست کو جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی دفعہ 370 اور دفعہ 35اے کو منسوخ کرنے کا اعلان کے ساتھ ہی جموں و کشمیر کو ریاست سے دو وفاقی علاقوں میں تقسیم کیا گیا۔ یہ فیصلے کشمیریوں کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کے لیے حیران کن تھے۔
حالانک دفعہ 370 کی منسوخی سے قبل جولائی کے آخری ہفتے کے دوران ہی لوگوں میں اس وقت کافی انتشار اور تذبذب پھیلنا شروع ہوا جب سرکار کی جانب سے ریلوے حکام کو تین ماہ کے لیے راشن زخیرہ کرنے کی ہدایت ملی تھیں۔ اس کے بعد پولیس، فوج اور نیم فوجی اہلکاروں کے لئے بھی راشن وافر مقدار میں مہیا کیا گیا۔
لوگوں کی بے چینی اس وقت بڑی جب سرکار نے 2 اگست کو ہی کشمیر میں موجود سیاحوں اور امرناتھ یاتریوں کے نام جلد سے جلد کشمیر سے واپس جانے کی مشاورت جاری کی گئی۔ مشاورت پر عمل کرتے ہوئے تمام تر سیاحوں نے کشمیر سے واپس کوچ کیا جبکہ کشمیر میں کام کر رہے غیر مقامی کاریگر و مزدور بھی اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ علاوہ ازیں کشمیر کے سبھی ہوٹل، ہاؤس بوٹ اور تجارتی مراکز خالی ہوئے۔
مرکزی سرکار نے اگست کی چار اور پانچ تاریخ کی درمیانی شب کو ہی جموں کشمیر کی سبھی مقامی ہند نواز سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں کو قید کر دیا۔ ان میں دو سابق وزرائے اعلی عمر عبداللہ و محبوبہ مفتی، ممبر پارلیمنٹ اور تین بار وزیر اعلیٰ رہ چکے ڈاکٹر فاروق عبداللہ، علیحدگی پسند سے ہند نواز سیاست میں شمولیت اختیات کرنے والے سجاد غنی لون، آئی اے ایس کی نوکری ترک کرکے سیاست میں قدم رکھنے والے شاہ فیصل وغیرہ شامل ہیں۔
ریاست کی سیاسی حیثیت تبدیل کرتے ہی پوری وادی کو فوجی چھاؤنی میں تبدیل کیا گیا۔
دفعہ 370 کی منسوخی کے ساتھ ہی پورے جموں کشمیر میں سخت ترین بندشیں نافذ کی گئیں۔ دو سے پانچ اگست کے دوران ہی چالیس ہزار اضافی فورسز اہلکار کشمیر پہنچائے گئے ۔
چار اور پانچ اگست کی درمیانی شب کو ہی موبائیل لینڈ لائن اور انٹرنیٹ خدمات کو معطل کیا گیا اور شب دو بجے مواصلاتی نظام پوری طرح سے بند کیا گیا۔
شہر کے علاوہ مختلف قصبہ جات میں لوگوں کی نقل وحمل پر پابندی عائد کی گئی۔ سرینگر کی جامع مسجد میں نماز پنجگانہ بھی ادا نہ ہو سکی اور اب تک لگاتار 15 ہفتوں سے جمعہ کی نماز ادا نہیں کی گئی۔
دفعہ کی منسوخی کے خلاف لوگوں نے مکمل ہڑتال کی تمام تر کاروباری و تعلیمی ادارے بند ہوئے جبکہ سڑکوں پر سےمسافر گاڑیاں بھی غائب ہوئیں۔ اس صورتحال میں اُس وقت حالات مزید کشیدہ ہوئے جب نا معلوم اسلحہ برداروں نے جنوبی کشمیر کے پلوامہ، شوپیاں اور کولگام میں سیب کا مال بھرنے اور فروخت کرنے کی غرض سے موجود گیارہ غیر مقامی تاجرین اور ڈرائیوروں کو ہلاک کر دیا۔ ڈرائیوروں کے چلے جانے سے کشمیر میں باغ مالکان کو مال باہر لیجانے کے لئے گاڑیاں دستیاب نہ ہونے کے سبب سخت مشکلات کا سامنا رہا۔
غیریقینی صورتحال اور لگاتار ہڑتال سے کشمیر میں سیاحت سمیت مختلف شعبوں کو دس ہزار کروڑ روپیے کا نقصان ہوا ہے۔
کشمیر میں اڑھائی لاکھ سے زائد افراد بے روز گار ہو گئے ہیں جبکہ ایک لاکھ کے قریب نجی ملازمین کو نوکریوں سے نکالا گیا۔
گرچہ تعلیمی ادارے بند ہونے کے سبب طلبہ و طالبات کا تعلیمی نصاب مکمل نہ ہو سکا، اس دوران سرکار کی جانب سے اسکول کھولنے کی ہدایات بھی جاری ہوئیں لیکن طلباء کی غیر حاضری کے سبب اسکولوں اور کالجوں میں تدریسی عمل شروع نہ ہو سکا۔ تاہم اس کے با وجود بھی انتظامیہکی جانب سے 28 اکتوبر سے بارہویں جماعت تک کے امتحانات منعقد کرائے گئے جو ابھی بھی جاری ہیں۔
کشمیر میں متعدد مقامات پر فورسز اہلکاروں پر پتھراؤ ہوا وہیں سرینگر کے نواحی علاقے صورہ میں فورسز اہلکاروں اور مقامی لوگوں کے مابین کئی روز تک زبر دست جھڑپیں ہوئیں۔ یہاں حالات اس قدر خراب ہوئے کہ مقامی اور بین الاقوامی میڈیا نے اسے ’’کشمیر کا غزہ‘‘ قرار دیا۔کرفیو اور بندشوں کا دور لگاتار ستر روز تک جاری رہا جس کے بعد سے رفتہ رفتہ ہر علاقے سے بندشیں ہٹائیگئیں۔
پانچ اگست سے آج تک سو روز کا عرصہ ہوا ہے اور اب صورتحال یہ ہے کہ صبح و شام کے اوقات میں تجارتی مراکز قلیل وقت تک کھلے رہتے ہیں۔ جبکہ نجی گاڑیوں کی نقل و حمل بھی جاری ہے۔
سیاحوں کے نام جاری مشاورت واپس لی گئی ہے لیکن وادی میں مشکل سے ہی کوئی سیاح موجود ہے۔ ہوٹل سنسان، تعلیمی ادارے بند، انٹرنیٹ، پری پیڈ موبائل فون اور ایس ایم ایس خدمات ہنوز بند ہیں۔
لوگ لگاتار انتشار و نذبزب میں ہیں جبکہ سو روز قبل شروع ہوئی غیریقینی صورتحال تاحال جاری ہے۔