سابق فوجی افسران اور دفاعی تجزیہ نگاروں کے مطابق بوفورس کا استعمال کرنے سی ہی کرگل اور دراس کی اونچی چٹانی پہاڑیوں کو عبور کرنے میں کامیابی ملی۔
یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ بوفورس ہتھیار، جنگ میں استعمال کیے جانے والے اہم اسلحے میں شمار کیا جاتا ہے اور اس کے استعمال سے بڑے راکٹ، میزائل اور دوسرے بم سے حریف فوج کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
بھارت نے 80 کی دہائی میں راجیو گاندھی کی قیادت والی حکومت میں سویڈن سے بوفورس خریدے تھے۔ بوفورس سودے میں کرپشن کی وجہ سے ہی راجیو گاندھی 1989 کے پارلیمانی انتخابات بری طرح ہار گئے تھے۔
سابق فوجی سربراہ وی پی ملک کی تصنیف کردہ کتاب 'کرگل- فرام سرپرائز ٹو وکٹری' میں لکھتے ہیں کہ 'کرگل جنگ میں 1000 بوفورس استعمال کئے گئے تھے، جس سے فوج کو کامیابی ملی'۔
سابق فوجی ترجمان ایس ڈی گوسوامی کرگل پر اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ 'کرگل میں 155ایم ایم بوفورس سے ڈھائی لاکھ گولے بارود پاکستانی فوجیوں پر پھینکے گئے تھے'۔
ان کے مطابق بوفورس تیس کلو میٹر کی دوری تک گولہ، بم اور میزائل داغ سکتے ہیں۔
سہ روزہ 'کرگل وجے دیوس' کے پہلے دن دراس علاقے میں تعینات فوج نے بوفورس کی نمائش کی۔ جس دوران اس کی جنگی خصوصیات کے بارے میں تفصیلی جانکاری دی گئی۔
فوجی افسران کے مطابق بوفورس لداخ خطے کے علاوہ دوسری سرحدوں پر تعینات کئے جا چکے ہیں۔