انتظامیہ نے اگرچہ یاتریوں اور سیاحوں کو وادی کشمیر سے نکلنے کے انتظامات بھی کیے ہیں اور انہیں مطلع بھی کیا ہے لیکن ان مزدوروں کا کسی نے حال دریافت کیا نہ ہی کسی نے ان کو نکلنے یا یہیں انہیں تحفظ بہم پہنچانے کا کوئی بندوبست کیا۔
وسطی ضلع بڈگام کے ایک دورافتادہ علاقے میں قائم ایک اینٹ بھٹی پر کام کرنے والے آکاش نامی ایک مزدور نے کہا کہ'اینٹ کا کام کرنے والے مزدور بغیر کسی ڈر کے کام کررہے ہیں۔'
انہوں نے کہا کہ 'یہاں اینٹ بھٹوں پر مزدور برابر کام کررہے ہیں، کسی کو کوئی ڈر نہیں ہے لیکن گھر والوں کے ساتھ رابطہ نہیں ہے جس سے تشویش ہورہی ہے'۔
ایک جمعدار کی حیثیت سے کام کرنے والے نور امام نے کہا کہ 'میں یہاں گذشتہ دو دہائی سے کام کررہا ہوں اور جب تک زندہ ہوں یہاں کام کرنے آتا رہوں گا۔'
انہوں نے کہا کہ 'میں گذشتہ بیس برسوں سے یہاں مختلف بھٹوں پر کام کرنے لگاتار آتا ہوں کبھی کوئی مشکل نہیں ہوئی ہے۔ آج بھی ہم یہاں آرام کے ساتھ کام کررہے ہیں'۔
ایک مقامی شہری نے ان غیر ریاستی مزدوروں کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ 'یہ لوگ غریب ہیں، انتہائی محنت ومشقت کرکے بمشکل ہی اپنا اور اپنے گھروالوں کا پیٹ پالتے ہیں۔'
قابل ذکر ہے کہ ماہ اگست کی دو تاریخ کو حکومت کی طرف سے ایک حکم نامہ جاری ہوا تھا جس میں یاتریوں، غیر ریاستی سیاحوں اور طلبا کو وادی چھوڑنے کی ہدایات دی گئی تھیں۔