جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے حکومت کو ہدایت دی کہ اگر مسلم لیگ کے چیئرمین مسرت عالم بھٹ کسی اور معاملے میں مطلوب نہیں ہے تو انھیں فوراً حراست سے رہا کیا جانا چاہیے۔
نظربندی کے حکم کو کالعدم کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ کسی شخص کو زیادہ سے زیادہ دو برس تک پی ایس اے (پبلک سیفٹی ایکٹ) کے تحت حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔
جسٹس سنیو کمار اور جسٹس رجنیش اوسوال پر مشتمل ڈویژن بنچ نے یہ حکم نامہ جاری کیا کہ مسرت عالم بھٹ کی نظربندی کی مدت ختم ہوگئی ہے اور حکومت کی جانب سے دائر عرضی غلط ثابت ہوگئی ہے۔
مسرت عالم نے سنگل بنچ کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا جس کے بعد 14 نومبر 2017 کو عدالت نے ان کی 36 ویں نظربندی حکم کے خلاف ان کی درخواست خارج کر دی تھی جو ضلع مجسٹریٹ کپواڑہ کے ذریعہ جاری کی گئی تھی۔
سنگل بینچ نے کہا کہ کسی بھی شخص کو اس لیے نظر بند کیا جاتا ہے تاکہ اگر اس کی وجہ سے معاشرے کو کوئی خطرہ لاحق ہوتا ہے تو معاشرے کو تحفظ فراہم کیا جائے۔
واضح رہے کہ مسرت عالم کے خلاف امن کو خراب کرنے اور امن و امان کو خطرہ لاحق کرنے کے لئے متعدد ایف آئی آر درج کیے گئے ہیں۔ انہوں نے 24 برس جیل میں گذارے ہیں۔ عدالت کے ذریعہ جب بھی اس کی نظربندی ختم کی جاتی ہے تو اس پر پی ایس اے لاگو کیا جاتا ہے۔
سنہ 2015 میں جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ مرحوم مفتی محمد سعید نے مسرت عالم کو رہا کیا تھا لیکن انہیں بعد میں 40 روز کے اندر دوبارہ حراست میں لیا گیا۔