جموں و کشمیر انتظامیہ کا کہنا ہے کہ انہیں امن میں رخنہ ڈالنے اور امتناعی احکامات کی خلاف ورزی کرنے کے الزام میں حراست میں لیا گیا ہے۔
اگست میں دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب سرینگر کے سول لائنز علاقے میں کسی احتجاج کا اہتمام کیا گیا۔
اطلاعات کے مطابق سرینگر میں خواتین کا ایک گروپ جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے خلاف پر امن احتجاج کر رہا تھا۔ اس احتجاج میں نیشنل کانفرنس کے صدر اور رکن پارلیمان فاروق عبداللہ کی ہمشیرہ ثریا متو اور اور بیٹی صفیہ عبداللہ نے بھی شرکت کی۔ سنٹرل جیل منتقل ہونے والی خواتین میں سماجی کارکن سشوبھا بروے بھی شامل ہیں۔
واضح رہے کہ سرینگر میں آج سابق وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ کی ہمشیرہ ثریا متو اور اور بیٹی صفیہ سمیت کئی کشمیری خواتین کو پولیس نے احتجاج کے دوران حراست میں لیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ کشمیری خواتین کا ایک گروپ دفعہ 370 کے خاتمے اور ریاست کی تقسیم کاری کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ مظاہرین میں خواتین کارکن اور معروف ماہرین تعلیم شامل تھیں۔
جموں و کشمیر کے تین سابق وزرائے اعلیٰ 5 اگست سے سرینگر میں نظر بند ہیں، ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے خلاف پبلک سیفٹی ایکٹ عائد کیا گیا تھا، اب پہلی بار حکومت نے واضح کیا ہے کہ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کو بھی اسی قانون کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔