بی جے پی والی مرکزی حکومت کی جانب سے لئے گئے اس غیر معمولی فیصلہ کا ایک برس مکمل ہوچکا ہے۔
پانچ اگست 2019کو جموں وکشمیر کی خصوصی حثیت کی منسوخی کے بعد پابندیوں اور بندشوں کے بیچ جہاں ہر ایک شعبہ بری طرح اثر انداز ہوا وہیں یہاں کے اقتصادی شعبہ پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے۔کشمیر وادی میں گزشتہ ایک سال سے جاری لاکڈاون کی وجہ سے معیشت کو تقریبا 40ہزار کروڑ روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔ اگست 2019 کے بعد اگچہ رواں سال کے مارچ مہنے سے یہاں کی کاروباری سرگرمیاں کسی حد بحال ہونا شروع ہوئیں تھیں ۔ لیکن کروناوائرس کی عالمی وبا نے یہاں کی معیشت کو پھر سے پیچھے کی اور دھکیل دیا۔
ایک سال کے دوران معیشت کو ہوئے 40ہزار کروڑ روپے کے نقصان سے متعلق دی فارم ہیومن رائٹس ان جموں و کشمیر نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں اس کا زکر کیا ہے۔چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے صدر شیخ عاشق بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہ اگست 2019 سے جون مہینے تک 5.3ملین ڈالر کانقصان ہو چکا ہے اور ہزاروان نوکریاں ختم ہوچکی ہیں ۔ان کا کہنا یے چھوڑے سے لے کر بڑے کاروباری اس وقت مالی خسارے سے دوچا ہیں ۔
یہ بھی پڑھیں
ایک سال کے دوران کشمیر کے سیاسی منظرنامہ میں کیا بدلا؟
کاروباری شعبہ کے علاوہ ٹرانسپورٹ اور شعبہ سیاحت پر بھی نمایاں اثرات دیکھنے کو ملے ہے ۔ ان شعبہ جات سے منسلک لوگ لگ بھگ 12ماہ کے طویل عرصے سےبے کاری اور بیروزگاری کی مار جھیلتے ہوئے مالی تنگی سے جوج رہے ہیں ۔
جموں و کشمیر کی اقتصادیات میں سیاحتی شعبہ ریڈ کی ہڈی کی حثیت رکھتا ہے ۔لیکن 5اگست 2019 کے بعد اس صنعت کی حالت ابتر ہے۔وادی کشمیرکی کی آبادی کا لگ بھگ 30فیصدی حصہ بلواسط یا بلاواسطہ طور سیاحتی صنعت سے جڑاہوا ۔جن میں ہوٹل مالکان، شکارے والے ،دوکاندار ،ٹرانسپورٹر اور ہاوس بوٹ مالکان وغیرہ شامل ہیں ۔
دفعہ 370 کی منسوخی اور کشمیر میں ترقی کی رفتار
اگست2019 کو لئے گئےفیصلے کے بعد سیاحتی شعبہ سے وابستہ افراد مایوسی اور پریشانی میں اپنی زندگی گزار رہے ہیں کمائی تو دور کی بات یہ تو دانے دانے کے لیے محتاج ہوگئے ہیں ۔
ہاوس بوٹ آنئرس ایسوسی کے جنرل سیکرٹری عبدالرشید کہتے ہیں کہ جموں وکشمیر میں دفعہ 370کے خاتمے سے پیدا شدہ صورتحال کے بعد سیاحتی شعبے سے جڑے افراد ابھی ابھر بھی نہیں پائے تھے کہ کروناوائرس کی وبا نے انہیں مزید پیچھے کر دیا۔جبکہ صرف ہاوس بوٹ انڈسٹری کو ہی ایک سال کے دوران لگ بھگ 2سو کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔
ادھر پبلک ٹرانسپورٹ کا پہیا بھی گزشتہ 12ماہ سے جام ہوکر رہ گیا ہے۔ اس صنعت سے بھی یہاں کی آبادی کا بڑا حصہ وابستہ ہے اور اس کی حالت بھی دیگر شعبہ جات سے کچھ الگ نہیں ہے۔ ٹرانسپورٹ صنعت بھی اس وقت کروڑوں کے نقصان سے دوچار ہے ۔ایک جانب جہاں ٹرانسپورٹر مالی لحاظ سے بدحالی کے شکار ہیں وہیں دوسری جانب ٹرانسپورٹر حضرات بینک قسطوں،فٹنس،پرمٹ اور دیگر اخراجات کے اضافی بوجھ تلے دب چکے ہیں ۔
اگرچہ مرکزی حکومت نے لاک ڈاؤن کے دوران خراب ہوئی معاشی صورتحال میں تازہ روح پھونکنے کے لیے 20لاکھ کروڑ روپے کے پیکیج کا اعلان کیا اور زندگی کے مختلف شعبہ جات میں نئی روح ڈالنے کے لیے مختلف نوعیت کے اقدامات کرنے کو ترجیحی طور منظور دی گئی۔لیکن اس پکیج میں جموں وکشمیر کے مختلف شعبہ جات کے لئے کسی مخصوص رقم کی کوئی زکر نہیں کی گئی ہے۔