ETV Bharat / state

'وادی سے شدت پسند تنظیم غزوۃ الہند کا صفایا'

جموں و کشمیر پولیس کے سربراہ دلباغ سنگھ کا کہنا ہے کہ شدت پسند تنظیم انصار غزوۃ الہند کا صفایا کر دیا گیا ہے۔

author img

By

Published : Oct 23, 2019, 1:25 PM IST

Updated : Oct 23, 2019, 4:40 PM IST

جموں و کشمیر پولیس کے سربراہ دلباغ سنگھ

سرینگر میں پریس کانفرنس کے دوران جموں و کشمیر کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس دلباغ سنگھ نے کہا کہ گذشتہ روز ضلع پلوامہ کے ترال علاقے میں تصادم کے دوران تین مقامی عسکریت پسند ہلاک ہوئے۔ اس سے قبل ضلع اننت ناگ میں سکیورٹی فورسز کے آپریشن کے دوران تین عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔

دلباغ سنگھ نے کہا کہ پلوامہ میں ہلاک ہونے والے عسکریت پسند شدت پسند تنظیم انصار غزوہ ہند سے وابستہ تھے۔ان میں سے ایک انصار غزوہ ہند کا کمانڈر حمید لِلہاری بھی شامل تھا۔

' انصار غزوہ ہند کا صفایا'

قابل ذکر ہے کہ مئی 2019 میں کشمیرالقاعدہ یونٹ کی شدت پسند تنظیم 'انصار غزوۃ الہند' کے بانی ذاکر موسیٰ کی ہلاکت کے بعد، حمید للہاری کو 'انصار غزوۃ الہند' کا نیا کمانڈر منتخب کیا تھا۔ حمید للہاری کا تعلق ضلع پلوامہ سے تھا۔

کشمیر پولیس کے مطابق گذشتہ روز عسکریت پسندوں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان تصادم کے دوران تین عسکریت پسند ہلاک ہوئے اور ان کے قبضے سے بھاری مقدار میں اسلحہ و بارود ضبط کیے گئے ہیں۔

دلباغ سنگھ نے مزید کہا کہ' ہم شدت پسندی پر قابو پانے کی اپنی کوششوں میں اسی وقت کامیاب ہوں گے جب کشمیر کے مقامی نوجوان عسکریت پسندی کا راستہ چھوڑ دیں گے اور امن کا راستہ چنیں گے۔ '

دلباغ سنگھ نے کہا کہ' ہم شدت پسندی پر قابو پانے کی اپنی کوششوں میں اسی وقت کامیاب ہوں گے جب کشمیر کے مقامی نوجوان عسکریت پسندی کا راستہ چھوڑ دیں گے اور امن کا راستہ چنیں گے۔

'دلباغ سنگھ نے ان رپورٹوں جن کے مطابق وادی میں 31 اکتوبر، جس دن جموں وکشمیر اور لداخ نامی دو مرکزی زیر انتظام والے علاقے معرض وجود میں آئیں گے، سے قب موبائل فون خدمات پھر سے معطل ہوں گی، کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کوئی اقدام زیر غور نہیں ہے۔'


پولیس سربراہ نے کہا کہ پاکستان کی طرف سے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیوں کا مقصد زیادہ سے زیادہ تعداد میں عسکریت پسندوں کو سرحد کے اس طرف بھیجنا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران دراندازی کی چند کوششیں کامیاب ہوئی ہیں تاہم گھبرانے والی کوئی بات نہیں ہے۔


دلباغ سنگھ نے کشمیری عسکریت پسندوں سے شدت پسندی کا راستہ ترک کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ'ہم آج بھی چاہیں گے کہ جو نوجوان غلط راستے پر چل پڑتے ہیں وہ اپنے ہتھیار چھوڑیں اور صحیح راستہ اپنانے کی کوشش کریں۔ ہتھیار موت کا راستہ ہے۔ ہتھیار موت دیتا ہے اور موت کا ماحول پیدا کرتا ہے۔ ابھی کچھ بگڑا نہیں ہے۔ ذاکر موسیٰ کے رہتے بھی کوئی کام آسان نہیں ہوا تھا۔ ذاکر موسیٰ کے بعد اگر اس گروپ کی کمانڈ حمید للہاری کے ہاتھ میں آگئی تو بھی انہیں نقصان کے سوا کچھ ہاتھ میں نہیں آیا'۔

ان کا مزید کہا کہ 'اس طرح کی سرگرمیاں روکنے میں ہم تب ہی کامیاب ہوسکتے ہیں جب یہاں کے مقامی

پولیس سربراہ نے کہا کہ پانچ اگست کے بعد خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ کشمیری نوجوان شدت پسندی کا راستہ اختیار کریں گے لیکن یہ خدشہ صحیح ثابت نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا: 'مجھے یہ کہنے میں بھی خوشی ہے کہ پانچ اگست کے بعد جو حالات یہاں بنے تھے اس کے چلتے لوگوں میں خدشات اور شکوک تھے کہ بڑی تعداد میں لوگ عسکری صفوں میں شامل ہوں گے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ جتنی تعداد میں نوجوان پانچ اگست سے قبل جنگجوئوں کی صفوں میں شامل ہوتے تھے تاہم پانچ اگست کے بعد بہت کم تعداد میں نوجوان ملی ٹنسی کی طرف راغب ہوئے۔ اس عرصے کے دوران صرف پانچ سے چھ نوجوان غائب ہوئے۔ مگر یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ عسکریت پسند بنے ہوں'۔

واضح رہے کہ 'انصارغزوۃ الہند' کو تشکیل دینے والے عسکریت پسند ذاکر موسیٰ پلوامہ کے ڈاڈسرہ گاؤں میں بھارتی فورسز کے ساتھ 10 گھنٹوں کے تصادم کے بعد ہلاک کردیے گئے تھے۔

ذاکر موسیٰ چند برس قبل حزب المجاہدین کے اہم رکن تھے اور برہان وانی کے قریبی ساتھی بھی تھے، تاہم آپسی اختلافات کے سبب انہوں نے تنظیم سے علیحدگی اختیار کرکے بعد میں نئی تنظیم انصار غزوۃ الہند تشکیل دی تھی۔

اگرچہ اس تنظیم میں چند عسکریت پسند ہی شامل ہوئے تاہم اختلاف رائے کے سبب وادی میں موسیٰ اور اس کی تنظیم کافی سرخیوں میں رہی۔ ذاکر موسیٰ، برہان وانی کے بعد سب سے معروف عسکریت پسند رہے، ان کی نماز جنازہ میں بارش اور سکیورٹی فورسز کی طرف سے عائد کی گئی بندشوں کے باوجود ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔

سرینگر میں پریس کانفرنس کے دوران جموں و کشمیر کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس دلباغ سنگھ نے کہا کہ گذشتہ روز ضلع پلوامہ کے ترال علاقے میں تصادم کے دوران تین مقامی عسکریت پسند ہلاک ہوئے۔ اس سے قبل ضلع اننت ناگ میں سکیورٹی فورسز کے آپریشن کے دوران تین عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔

دلباغ سنگھ نے کہا کہ پلوامہ میں ہلاک ہونے والے عسکریت پسند شدت پسند تنظیم انصار غزوہ ہند سے وابستہ تھے۔ان میں سے ایک انصار غزوہ ہند کا کمانڈر حمید لِلہاری بھی شامل تھا۔

' انصار غزوہ ہند کا صفایا'

قابل ذکر ہے کہ مئی 2019 میں کشمیرالقاعدہ یونٹ کی شدت پسند تنظیم 'انصار غزوۃ الہند' کے بانی ذاکر موسیٰ کی ہلاکت کے بعد، حمید للہاری کو 'انصار غزوۃ الہند' کا نیا کمانڈر منتخب کیا تھا۔ حمید للہاری کا تعلق ضلع پلوامہ سے تھا۔

کشمیر پولیس کے مطابق گذشتہ روز عسکریت پسندوں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان تصادم کے دوران تین عسکریت پسند ہلاک ہوئے اور ان کے قبضے سے بھاری مقدار میں اسلحہ و بارود ضبط کیے گئے ہیں۔

دلباغ سنگھ نے مزید کہا کہ' ہم شدت پسندی پر قابو پانے کی اپنی کوششوں میں اسی وقت کامیاب ہوں گے جب کشمیر کے مقامی نوجوان عسکریت پسندی کا راستہ چھوڑ دیں گے اور امن کا راستہ چنیں گے۔ '

دلباغ سنگھ نے کہا کہ' ہم شدت پسندی پر قابو پانے کی اپنی کوششوں میں اسی وقت کامیاب ہوں گے جب کشمیر کے مقامی نوجوان عسکریت پسندی کا راستہ چھوڑ دیں گے اور امن کا راستہ چنیں گے۔

'دلباغ سنگھ نے ان رپورٹوں جن کے مطابق وادی میں 31 اکتوبر، جس دن جموں وکشمیر اور لداخ نامی دو مرکزی زیر انتظام والے علاقے معرض وجود میں آئیں گے، سے قب موبائل فون خدمات پھر سے معطل ہوں گی، کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کوئی اقدام زیر غور نہیں ہے۔'


پولیس سربراہ نے کہا کہ پاکستان کی طرف سے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیوں کا مقصد زیادہ سے زیادہ تعداد میں عسکریت پسندوں کو سرحد کے اس طرف بھیجنا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران دراندازی کی چند کوششیں کامیاب ہوئی ہیں تاہم گھبرانے والی کوئی بات نہیں ہے۔


دلباغ سنگھ نے کشمیری عسکریت پسندوں سے شدت پسندی کا راستہ ترک کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ'ہم آج بھی چاہیں گے کہ جو نوجوان غلط راستے پر چل پڑتے ہیں وہ اپنے ہتھیار چھوڑیں اور صحیح راستہ اپنانے کی کوشش کریں۔ ہتھیار موت کا راستہ ہے۔ ہتھیار موت دیتا ہے اور موت کا ماحول پیدا کرتا ہے۔ ابھی کچھ بگڑا نہیں ہے۔ ذاکر موسیٰ کے رہتے بھی کوئی کام آسان نہیں ہوا تھا۔ ذاکر موسیٰ کے بعد اگر اس گروپ کی کمانڈ حمید للہاری کے ہاتھ میں آگئی تو بھی انہیں نقصان کے سوا کچھ ہاتھ میں نہیں آیا'۔

ان کا مزید کہا کہ 'اس طرح کی سرگرمیاں روکنے میں ہم تب ہی کامیاب ہوسکتے ہیں جب یہاں کے مقامی

پولیس سربراہ نے کہا کہ پانچ اگست کے بعد خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ کشمیری نوجوان شدت پسندی کا راستہ اختیار کریں گے لیکن یہ خدشہ صحیح ثابت نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا: 'مجھے یہ کہنے میں بھی خوشی ہے کہ پانچ اگست کے بعد جو حالات یہاں بنے تھے اس کے چلتے لوگوں میں خدشات اور شکوک تھے کہ بڑی تعداد میں لوگ عسکری صفوں میں شامل ہوں گے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ جتنی تعداد میں نوجوان پانچ اگست سے قبل جنگجوئوں کی صفوں میں شامل ہوتے تھے تاہم پانچ اگست کے بعد بہت کم تعداد میں نوجوان ملی ٹنسی کی طرف راغب ہوئے۔ اس عرصے کے دوران صرف پانچ سے چھ نوجوان غائب ہوئے۔ مگر یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ عسکریت پسند بنے ہوں'۔

واضح رہے کہ 'انصارغزوۃ الہند' کو تشکیل دینے والے عسکریت پسند ذاکر موسیٰ پلوامہ کے ڈاڈسرہ گاؤں میں بھارتی فورسز کے ساتھ 10 گھنٹوں کے تصادم کے بعد ہلاک کردیے گئے تھے۔

ذاکر موسیٰ چند برس قبل حزب المجاہدین کے اہم رکن تھے اور برہان وانی کے قریبی ساتھی بھی تھے، تاہم آپسی اختلافات کے سبب انہوں نے تنظیم سے علیحدگی اختیار کرکے بعد میں نئی تنظیم انصار غزوۃ الہند تشکیل دی تھی۔

اگرچہ اس تنظیم میں چند عسکریت پسند ہی شامل ہوئے تاہم اختلاف رائے کے سبب وادی میں موسیٰ اور اس کی تنظیم کافی سرخیوں میں رہی۔ ذاکر موسیٰ، برہان وانی کے بعد سب سے معروف عسکریت پسند رہے، ان کی نماز جنازہ میں بارش اور سکیورٹی فورسز کی طرف سے عائد کی گئی بندشوں کے باوجود ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔

Intro:Body:

J&K: Zakir Musa's successor Hamid Lelhari killed in Awantipora encounter


Conclusion:
Last Updated : Oct 23, 2019, 4:40 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.