درخواست گزاروں کی نمائندگی کرنے والے سینیئر وکیل راجو رام چندرن نے جسٹس این وی رمنا کی سربراہی میں پانچ رکنی ججز کے آئین بنچ کو کہا کہ دفعہ 370 کی زبان واضح ہے کہ کوئی بھی ردوبدل صرف ریاست کے لوگوں کے کہنے پر ہوسکتا ہے۔
سینیئر وکیل راجو رام چندرن نے کہا کہ' 26 اکتوبر 1947 میں مہاراجہ ہری سنگھ کی جانب سے دستخط کئے گئے دستاویزات کے ذریعے جموں و کشمیر کو انڈین یونین کے ساتھ الحاق کیا گیا تھا۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'حکومت کی طرف سے دیے گئے اتفاق رائے کو جموں وکشمیر کی آئینی اسمبلی کے سامنے رکھنا ہوگا جس کا مطلب ہے کہ جموں و کشمیر کے لوگوں کو اس فیصلے کی منظوری دینی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کے پاس اس ردوبدل کا کوئی حق نہیں ہے۔'
رام چندرن نے دعوی کیا کہ مرکزی حکومت کی جانب سے دفعہ 370 کی منسوخی کا یہ فیصلہ غیر آئینی اور آئینی اختیارات کے ناقابل استعمال تھا اور یہ جموں و کشمیر کے لوگوں کی خواہشات کو نظرانداز کرتے ہوئے کیا گیا۔'
وکیل نے کہا کہ' جموں و کشمیر کا آئین یہ کہتا ہے کہ ریاست بھارتی یونین کا اندونی حصہ ہے۔'
انہوں نے کہا کہ اراکین پارلیمان کے پاس دفعہ 370 میں ترمیم کے لیے بل کو دیکھنے کے لیے وقت نہیں ہے۔اگرچہ یہ قانون سازی کے عمل کی نوعیت اور جلد بازی پر اثر ڈالتی ہے چاہے وہ ایسی صورتحال میں آئینی حیثیت کا تصور ہی مضمر ہے۔'
اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال جنہوں نے مرکز کی جانب سے پیشی کی، نے درخواست گزاروں کے ذریعہ پیش کی گئی تحریری جمع کرانے میں اس تنازعہ کی مخالفت کی - انہوں نے کہا کہ اراکین پارلیمان کو یہ بل نہیں دکھایا گیا کیونکہ اسبل کو ' غلط' قرار دیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ 5 اگست کو مرکزی حکومت نے 370 کو ختم کرکے ریاست کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کر دیا ہے۔ اس فیصلے کے بعد سے ہی وادی کشمیر میں غیر یقینی صورتحال اور اضطرابی کیفیت جاری ہے۔
وادی میں انٹرنیٹ اور پری پیڈ موبائل فون سروسز بدستور معطل ہے۔