ETV Bharat / state

روشنی ایکٹ کے فیصلے میں ترمیم کی عرضی - جموں و کشمیر ہائی کورٹ

ایکٹ کے حوالے سے ایک حلف نامہ داخل کیا گیا ہے جس میں عدالت کی جانب سے 9 اکتوبرکو دیے گئے فیصلے میں ترمیم کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔ انتظامیہ نے درخواست میں دعویٰ کیا ہے کہ اس حکم سے عوام 'غیر ارادی طور پر' متاثر ہو سکتے ہیں-

انتظامیہ کی ہائی کورٹ میں عرضی
انتظامیہ کی ہائی کورٹ میں عرضی
author img

By

Published : Dec 7, 2020, 11:10 AM IST

جموں و کشمیر انتظامیہ نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ ایکٹ سے فائدہ اٹھانے والے عام لوگوں اور بااثر افراد کے مابین ایک فرق ضروری ہے۔

واضح رہے کہ جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے 9 اکتوبر کو جموں و کشمیر اسٹیٹ لینڈ (قبضہ کرنے والوں کے لئے ملکیت کی حق تصنیف) ایکٹ 2001 کو 'غیر آئینی' قرار دیا تھا- یہ قانون ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی حکومت نے سنہ 2001 میں پاس کیا تھا۔

قابل ذکر ہے کہ روشنی ایکٹ کے تحت سرکاری زمین جو کسی شخص نے قبضے میں لیا تھا، اس کو باقاعدہ قانونی طور پر قابضین کو بازار کی قیمتوں پر منتقل کرنا تھا۔ اس عمل کو مکمل کرنے کے لئے 1990 تک کٹ آف سال قرار دیا تھا۔ تاہم بعد میں پی ڈی پی اور کانگریس سرکار نے کٹ آف سال کو بدل کر 2007 کر دیا تھا- سرکار نے یہ فیصلہ بجلی یا روشنی کے لئے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے لئے 25،000 کروڑ روپئے اکٹھا کرنے کے لئے کیا تھا۔

گزشتہ مہینے ہائی کورٹ کی جانب سے روشنی ایکٹ کے حوالے سے لئے گئے فیصلے کے بعد جموں و کشمیر انتظامیہ نے روشنی اور غیر روشنی فہرستیں جاری کرنا شروع کر دیا-

ہائی کورٹ کے حکم کے مطابق جموں و کشمیر انتظامیہ نے عرض کیا تھا کہ کل 6،04،602 کنال (75،575 ایکڑ) سرکاری اراضی کو باقاعدہ اور قابضین کو منتقل کر دیا گیا ہے۔ اس میں جموں میں 5،71،210 کنال (71،401 ایکڑ) اور خطہ کشمیر میں 33،392 کنال (4،174 ایکڑ) شامل ہیں۔

انتظامیہ کے ایک ذرائع نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ باقاعدہ اراضی کی اکثریت جموں میں واقع ہے، روشنی ایکٹ کو ختم کرنے کے بارے میں موسم سرما کے دارالحکومت کی رائے مثبت نہیں تھی اور ایک حد تک یہ بھی تشویشناک ہے۔

سرکار نے کہا کہ 'عام کاشتکاروں اور دوسری طرف 'دولت مند زبردستی قبضہ کرنے والوں' کے درمیان فرق کرنے کی ضرورت ہے۔'

جمعہ کے روز خصوصی سکریٹری کے ذریعہ دائر عرضی میں کہا گیا ہے کہ 'ہم عدالت کے نوٹس میں لانا چاہیں گے کہ عام لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو غیر ارادی طور پر نقصان اٹھانا پڑے گا۔ اس میں بے زمین کاشتکار اور افراد شامل ہیں جو خود چھوٹے علاقوں میں رہائش پذیر ہیں۔ بدقسمتی سے ان کو دولت مند قبضہ کرنے والوں کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔'

انہوں نے کہا کہ ہم عدالت سے رجوع کرتے ہیں کہ حکومت کو آئندہ تاریخ کو ایک مناسب طریقۂ کار تیار کرنے کی اجازت دی جاسکے تاکہ عام لوگوں کو ناجائز قبضہ کرنے والوں کے ساتھ نہ جوڑا جائے۔'

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ 'وہ لوگ جو سرکاری اراضی پر کمرشل پراپرٹی بنائے ہوئے ہیں، کو کوئی راحت نہیں دی جائے گی۔'

جموں و کشمیر انتظامیہ نے سی بی آئی کی طرف سے شروع کی گئی تحقیقات پر بھی سوالات اٹھائے ہیں اور کہا ہے کہ شائد جموں و کشمیر ہائی کورٹ کا یہ ارادہ نہیں تھا کہ وہ ہزاروں سرکاری ملازمین کی تحقیقات کرے جنہوں نے بغیر کسی بدنیتی کے اس ایکٹ کو نافذ کیا تھا۔

حکومت کی عرضی میں مزید کہا گیا ہے کہ 'سی بی آئی کو ریاست کو دھوکہ دینے والے بااثر اور طاقتور لوگوں پر توجہ دینے کی اجازت دی جائے۔'

جموں و کشمیر انتظامیہ نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ ایکٹ سے فائدہ اٹھانے والے عام لوگوں اور بااثر افراد کے مابین ایک فرق ضروری ہے۔

واضح رہے کہ جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے 9 اکتوبر کو جموں و کشمیر اسٹیٹ لینڈ (قبضہ کرنے والوں کے لئے ملکیت کی حق تصنیف) ایکٹ 2001 کو 'غیر آئینی' قرار دیا تھا- یہ قانون ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی حکومت نے سنہ 2001 میں پاس کیا تھا۔

قابل ذکر ہے کہ روشنی ایکٹ کے تحت سرکاری زمین جو کسی شخص نے قبضے میں لیا تھا، اس کو باقاعدہ قانونی طور پر قابضین کو بازار کی قیمتوں پر منتقل کرنا تھا۔ اس عمل کو مکمل کرنے کے لئے 1990 تک کٹ آف سال قرار دیا تھا۔ تاہم بعد میں پی ڈی پی اور کانگریس سرکار نے کٹ آف سال کو بدل کر 2007 کر دیا تھا- سرکار نے یہ فیصلہ بجلی یا روشنی کے لئے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے لئے 25،000 کروڑ روپئے اکٹھا کرنے کے لئے کیا تھا۔

گزشتہ مہینے ہائی کورٹ کی جانب سے روشنی ایکٹ کے حوالے سے لئے گئے فیصلے کے بعد جموں و کشمیر انتظامیہ نے روشنی اور غیر روشنی فہرستیں جاری کرنا شروع کر دیا-

ہائی کورٹ کے حکم کے مطابق جموں و کشمیر انتظامیہ نے عرض کیا تھا کہ کل 6،04،602 کنال (75،575 ایکڑ) سرکاری اراضی کو باقاعدہ اور قابضین کو منتقل کر دیا گیا ہے۔ اس میں جموں میں 5،71،210 کنال (71،401 ایکڑ) اور خطہ کشمیر میں 33،392 کنال (4،174 ایکڑ) شامل ہیں۔

انتظامیہ کے ایک ذرائع نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ باقاعدہ اراضی کی اکثریت جموں میں واقع ہے، روشنی ایکٹ کو ختم کرنے کے بارے میں موسم سرما کے دارالحکومت کی رائے مثبت نہیں تھی اور ایک حد تک یہ بھی تشویشناک ہے۔

سرکار نے کہا کہ 'عام کاشتکاروں اور دوسری طرف 'دولت مند زبردستی قبضہ کرنے والوں' کے درمیان فرق کرنے کی ضرورت ہے۔'

جمعہ کے روز خصوصی سکریٹری کے ذریعہ دائر عرضی میں کہا گیا ہے کہ 'ہم عدالت کے نوٹس میں لانا چاہیں گے کہ عام لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو غیر ارادی طور پر نقصان اٹھانا پڑے گا۔ اس میں بے زمین کاشتکار اور افراد شامل ہیں جو خود چھوٹے علاقوں میں رہائش پذیر ہیں۔ بدقسمتی سے ان کو دولت مند قبضہ کرنے والوں کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔'

انہوں نے کہا کہ ہم عدالت سے رجوع کرتے ہیں کہ حکومت کو آئندہ تاریخ کو ایک مناسب طریقۂ کار تیار کرنے کی اجازت دی جاسکے تاکہ عام لوگوں کو ناجائز قبضہ کرنے والوں کے ساتھ نہ جوڑا جائے۔'

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ 'وہ لوگ جو سرکاری اراضی پر کمرشل پراپرٹی بنائے ہوئے ہیں، کو کوئی راحت نہیں دی جائے گی۔'

جموں و کشمیر انتظامیہ نے سی بی آئی کی طرف سے شروع کی گئی تحقیقات پر بھی سوالات اٹھائے ہیں اور کہا ہے کہ شائد جموں و کشمیر ہائی کورٹ کا یہ ارادہ نہیں تھا کہ وہ ہزاروں سرکاری ملازمین کی تحقیقات کرے جنہوں نے بغیر کسی بدنیتی کے اس ایکٹ کو نافذ کیا تھا۔

حکومت کی عرضی میں مزید کہا گیا ہے کہ 'سی بی آئی کو ریاست کو دھوکہ دینے والے بااثر اور طاقتور لوگوں پر توجہ دینے کی اجازت دی جائے۔'

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.