ETV Bharat / state

'جیل میں قلم کی بہت یاد آئی' - ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے قاضی شبلی

تین مئی کو دنیا بھر میں آزادی صحافت کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد عالمی سطح پرصحافتی آزادی کی اہمیت کو اجاگر کرانا اور آزادی صحافت میں پیش آنے والی مشکلات اور رکاوٹوں کے سدباب کے لئے اقدامات اٹھانا ہے۔

' جیل میں قلم کی بہت یاد ائی'
' جیل میں قلم کی بہت یاد ائی'
author img

By

Published : May 4, 2020, 8:51 PM IST

تاہم دنیا بھر میں آزادی صحافت کیلئے صحافیوں کی قربانیاں لازوال ہیں۔ وادی کشمیر کا جائزہ لیا جائے تو یہاں بھی صحافی ایک طویل عرصے سے اپنی آزادی کیلئے قربانیاں دے رہے ہیں ان کی قربانیوں کی ایک ناقابل فراموش تاریخ ہے۔

ایسے ہی صحافیوں میں شمار ہوتے ہیں جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ کے رہنے والے قاضی شُبلی۔ وہ گزشتہ کئی برسوں سے دی کشمیریت، کے نام سے ایک نیوز پورٹل چلا رہے ہیں۔ قاضی شُبلی کو اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب گزشتہ برس ریاست جموں کشمیر میں دفعہ 370 کو تنسیخ کرنے کی تیاریاں چل رہی تھیں۔ ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے قاضی شبلی نے کہا کہ 27 اکتوبر 2019 کو انہوں نے ایک ٹویٹ کیا تھا جس میں انہوں نے تحریر کیا تھا کہ ریاست میں سکیورٹی فورسز کی بھاری تعیناتی کی جارہی ہے۔قاضی شبلی نے کہا کہ 'اس کے بعد انہیں پولیس اسٹیشن اننت ناگ بلا کر ان سے پوچھ تاچھ کی گئی۔ان پر الزامات لگائے گئے کہ وہ اپنے نیوز پورٹل پر غیر مصدقہ اور ایسی خبریں شائع کرتے ہیں جس سے سماج میں انتشار پھیلنے اور لوگوں کو اکسانے کا خدشہ رہتا ہے جس کے بعد شبلی کو،، پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت ریاست اتر پردیش کے جیل میں قید کیا گیا۔'
' جیل میں قلم کی بہت یاد ائی'

شبلی نے کہا کہ ان کا رپورٹ صداقت پر مبنی تھا جو سرکاری حکم نامے کے عین مطابق تھا۔ اس کے باوجود بھی انہیں 9 ماہ تک جیل کی ہوا کھانا پڑی جو سراسر زیادتی ہے۔

شبلی نے کہا کہ نو ماہ کے طویل وقت کے دوران انہیں کبھی انتی تکلیف نہیں پہنچی جتنی انہیں اس وقت پہنچی جب ان کی طرف سے قلم فراہم کرنے کی خواہش کو پورا نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ایک حقیقی صحافی کو لکھنے اور پڑھنے کے ساتھ کافی لگاؤ ہوتا ہے۔ وہ جیل کے اندر اپنی آپ بیتی اور آزاد صحافت کے بارے میں قلم کے ذریعہ اپنے اظہار خیال کے خواہشمند تھے تاہم نو ماہ تک قلم کی مانگ کرتے رہے تاہم انہیں ہر بار منع کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ' چند نیشنل میڈیا تنظیموں کی جانب سے کشمیر کے بارے میں زہر گولا جا رہا ہےجس کی وجہ سے کشمیریوں کو دہشت گرد کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے تاہم جب باہر کے لوگ ایک کشمیری سے حقیقی طور روبرو ہوتے ہیں تو ان کی ساری غلط فہمیاں دور ہو جاتی ہیں۔

شبلی نے کہا کہ انہیں وہ خوفناک منظر ابھی بھی یاد ہے جب انہیں گرفتار کرکے نا معلوم جگہ پر لے جایا جا رہا تھا۔ ان کا کہنا ہے سلوک اس طرح سے کیا گیا جیسے وہ خطرناک دہشت گردوں کو پکڑ کے لے جا رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ایک طرف صحافت کو جمہوریت کا چوتھا اور اہم سطون تصور کیا جا تا ہے دوسری جانب ان کی آزادی چھین کر محتاط رہنے کو کہا جاتا ہے۔ زمینی حقائق کو منظر عام پر لانے والے صحافیوں پر مختلف الزام تھوپ کر اذیتیں پہنچائی جا رہی ہے۔

شبلی کا کہنا ہے کہ صحافیوں کی آزادی چھین کر ان کے حقوق سلب کرکے عالمی آزادی یوم صحافت منانے کا مقصد بے معنیٰ ہے۔آئے روز ملک و دنیا کے دیگر حصوں خاص کر کشمیر میں صحافیوں پر ظلم و زیادتی ہو رہی ہے۔ بار بار گوہار لگانے کے بعد کوئی پرسان حال نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ اس دن کے موقع پر یہی پیغام دینا چاہتے ہیں صحافیوں کو بین الاقوامی ملکی و مقامی سطح پر یکجہتی کا اظہار کرنا چاہئے اور اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے مل جل کر لڑنا چاہئے۔ اور خاص کر کشمیری صحافیوں کو ایک ایسے لائحہ عمل کے تحت کام کرنا چاہئے جس سے،، کشمیریت اور کشمیریوں کے مثبت پہلو کو اجاگر کیا جا سکے۔


تاہم دنیا بھر میں آزادی صحافت کیلئے صحافیوں کی قربانیاں لازوال ہیں۔ وادی کشمیر کا جائزہ لیا جائے تو یہاں بھی صحافی ایک طویل عرصے سے اپنی آزادی کیلئے قربانیاں دے رہے ہیں ان کی قربانیوں کی ایک ناقابل فراموش تاریخ ہے۔

ایسے ہی صحافیوں میں شمار ہوتے ہیں جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ کے رہنے والے قاضی شُبلی۔ وہ گزشتہ کئی برسوں سے دی کشمیریت، کے نام سے ایک نیوز پورٹل چلا رہے ہیں۔ قاضی شُبلی کو اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب گزشتہ برس ریاست جموں کشمیر میں دفعہ 370 کو تنسیخ کرنے کی تیاریاں چل رہی تھیں۔ ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے قاضی شبلی نے کہا کہ 27 اکتوبر 2019 کو انہوں نے ایک ٹویٹ کیا تھا جس میں انہوں نے تحریر کیا تھا کہ ریاست میں سکیورٹی فورسز کی بھاری تعیناتی کی جارہی ہے۔قاضی شبلی نے کہا کہ 'اس کے بعد انہیں پولیس اسٹیشن اننت ناگ بلا کر ان سے پوچھ تاچھ کی گئی۔ان پر الزامات لگائے گئے کہ وہ اپنے نیوز پورٹل پر غیر مصدقہ اور ایسی خبریں شائع کرتے ہیں جس سے سماج میں انتشار پھیلنے اور لوگوں کو اکسانے کا خدشہ رہتا ہے جس کے بعد شبلی کو،، پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت ریاست اتر پردیش کے جیل میں قید کیا گیا۔'
' جیل میں قلم کی بہت یاد ائی'

شبلی نے کہا کہ ان کا رپورٹ صداقت پر مبنی تھا جو سرکاری حکم نامے کے عین مطابق تھا۔ اس کے باوجود بھی انہیں 9 ماہ تک جیل کی ہوا کھانا پڑی جو سراسر زیادتی ہے۔

شبلی نے کہا کہ نو ماہ کے طویل وقت کے دوران انہیں کبھی انتی تکلیف نہیں پہنچی جتنی انہیں اس وقت پہنچی جب ان کی طرف سے قلم فراہم کرنے کی خواہش کو پورا نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ایک حقیقی صحافی کو لکھنے اور پڑھنے کے ساتھ کافی لگاؤ ہوتا ہے۔ وہ جیل کے اندر اپنی آپ بیتی اور آزاد صحافت کے بارے میں قلم کے ذریعہ اپنے اظہار خیال کے خواہشمند تھے تاہم نو ماہ تک قلم کی مانگ کرتے رہے تاہم انہیں ہر بار منع کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ' چند نیشنل میڈیا تنظیموں کی جانب سے کشمیر کے بارے میں زہر گولا جا رہا ہےجس کی وجہ سے کشمیریوں کو دہشت گرد کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے تاہم جب باہر کے لوگ ایک کشمیری سے حقیقی طور روبرو ہوتے ہیں تو ان کی ساری غلط فہمیاں دور ہو جاتی ہیں۔

شبلی نے کہا کہ انہیں وہ خوفناک منظر ابھی بھی یاد ہے جب انہیں گرفتار کرکے نا معلوم جگہ پر لے جایا جا رہا تھا۔ ان کا کہنا ہے سلوک اس طرح سے کیا گیا جیسے وہ خطرناک دہشت گردوں کو پکڑ کے لے جا رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ایک طرف صحافت کو جمہوریت کا چوتھا اور اہم سطون تصور کیا جا تا ہے دوسری جانب ان کی آزادی چھین کر محتاط رہنے کو کہا جاتا ہے۔ زمینی حقائق کو منظر عام پر لانے والے صحافیوں پر مختلف الزام تھوپ کر اذیتیں پہنچائی جا رہی ہے۔

شبلی کا کہنا ہے کہ صحافیوں کی آزادی چھین کر ان کے حقوق سلب کرکے عالمی آزادی یوم صحافت منانے کا مقصد بے معنیٰ ہے۔آئے روز ملک و دنیا کے دیگر حصوں خاص کر کشمیر میں صحافیوں پر ظلم و زیادتی ہو رہی ہے۔ بار بار گوہار لگانے کے بعد کوئی پرسان حال نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ اس دن کے موقع پر یہی پیغام دینا چاہتے ہیں صحافیوں کو بین الاقوامی ملکی و مقامی سطح پر یکجہتی کا اظہار کرنا چاہئے اور اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے مل جل کر لڑنا چاہئے۔ اور خاص کر کشمیری صحافیوں کو ایک ایسے لائحہ عمل کے تحت کام کرنا چاہئے جس سے،، کشمیریت اور کشمیریوں کے مثبت پہلو کو اجاگر کیا جا سکے۔


ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.