وادی کشمیر میں ریکارڈ ساز انٹرنیٹ معطلی کے جمعہ کے روز پانچ ماہ مکمل ہوگئے اس دوران جہاں ای کامرس مکمل طور پر ٹھپ ہونے کے باعث سینکڑوں نوجوان بے روزگار ہوئے ہیں، وہیں طلبا کا مستقبل داؤ پر لگ گیا اور صحافیوں کی پیشہ ورانہ سرگرمیاں بھی از حد محدود اور متاثر ہوئیں۔
ادھر وادی میں نجی مواصلاتی کمپنیوں کے سم کارڈوں پر بھی ایس ایم ایس سروس بحال ہوئی ہے جس سے لوگوں کو راحت نصیب ہوئی ہے کیونکہ اب ان کے فون نمبرات پر او ٹی پی نمبر آسکتا ہے جو مختلف اہم امور کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ سرکاری مواصلاتی کمپنی بی ایس این ایل کے سم کارڈوں پر سال نو کی آمد کے موقع پر ہی ایس ایم ایس سروس بحال ہوئی تھی۔
بتادیں کہ مرکزی حکومت کی طرف سے جموں و کشمیر کو دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کے تحت حاصل خصوصی اختیارات کی تنسیخ اور ریاست کو دو حصوں میں منقسم کرنے کے پیش نظر 4 اور 5 اگست کی درمیانی رات کو سابقہ ریاست جموں کشمیر میں انٹرنیٹ خدمات معطل کی گئی تھیں۔
اگرچہ لداخ کے دونوں اضلاع میں انٹرنیٹ خدمات بطور کلی بحال ہوئی ہیں تاہم جموں میں موبائل انٹرنیٹ اور کشمیر میں تمام طرح کی انٹرنیٹ سہولیات ہنوز معطل ہیں۔
وادی میں تمام طرح کی انٹرنیٹ سروسز پر جاری پابندی سے مختلف شعبہ ہائے حیات سے وابستہ لوگوں کو نوع بہ نوع مسائل اور مشکلات دوچار ہیں جہاں ایک طرف ای کامرس مکمل طور پر ٹھپ ہے اور اس سے وابستہ سینکڑوں میں تعداد میں نوجوان بے روزگار ہوئے وہیں طلبا کا مستقبل داؤ پر اور صحافیوں کی پیشہ ورانہ سرگرمیاں محدود اور از حد متاثر ہوئی ہیں۔
مختلف مسابقتی امتحانات کی تیاریوں میں مصروف طلبا کا کہنا ہے کہ مرکز کی مختلف ایجنسیوں نے وادی میں مختلف مسابقتی امتحانات انٹرنیٹ سہولیات کی معطلی کے پیش نظر جموں میں منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے باعث وادی سے تعلق رکھنے والے بیشتر طلبا موجودہ موسمی حالات اور ہوائی سفر کے کرایے کی مہنگائی کے باعث امتحانات میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں۔
وادی میں انٹرنیٹ سہولیات پر جاری پابندی سے طلبا کو اسکالر شپ فارم، امتحانی فارم یا داخلہ فارم جمع کرنے میں بھی جن مشکلات کا سامنا ہے ان کی نظیر دنیا کے کسی بھی حصے میں نہیں ملتی ہے۔
طلبا کا کہنا ہے کہ حکومت کی طرف سے ضلع صدر مقامات پر قائم این آئی سی سینٹروں میں ناکافی سہولیات دستیاب ہیں جس کے باعث طلبا کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کسی بھی قسم کا فارم جمع کرنے کے لئے نہ صرف لمبی قطاروں میں ٹھٹھرتی سردی کے بیچ گھنٹوں کھڑا رہنا پڑتا ہے بلکہ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کئی دنوں کے بعد فارم جمع کرنے کی بھاری آتی ہے۔
طلبا کا الزام ہے کہ ان این آئی سی سینٹروں میں فارم جمع کرنے کے لیے سینٹروں کے باہر ایجنٹ جن میں بیشتر ضلع مجسٹریٹ دفاتر کے ملازم شامل ہیں، بھی سرگرم ہوئے ہیں جو طلبا سے منہ مانگی رقم وصول کرکے ان کا فارم جمع کرتے ہیں بلکہ طلبا کو سینٹر میں ایسی سلپیں بھی دی جاتی ہیں جن پر اسکالر شپ فارم جمع کرنے کی آخری تاریخ کے بعد کی تاریخ دی جاتی ہے۔
وادی میں انٹرنیٹ سہولیات پر پابندی کے پیش نظر انتظامیہ نے صحافیوں کے لیے پہلے سری نگر میں واقع ایک نجی ہوٹل میں ایک میڈیا سینٹر قائم کیا جس کو بعد ازاں محکمہ اطلاعات وتعلقات عامہ کے ایک چھوٹے کمرے میں منتقل کیا گیا جہاں بنیادی سہولیات نہ صرف ناکافی ہیں بلکہ انٹرنیٹ کی رفتار بھی اس قدر دھیمی ہوتی ہے کہ فائل کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
صحافیوں کا کہنا ہے کہ 'کم وبیش پانچ سو صحافیوں کے لیے دستیاب دس کمپیوٹرز پر کام کرنا مشکل امر ہے۔ انہوں نے کہا کہ انٹرنیٹ سہولیات کی معطلی سے ہمارا پیشہ ورانہ کام کاج محدود اور از حد متاثر ہوا ہے۔'
صحافیوں نے وادی میں کم سے کم براڈ بینڈ انٹرنیٹ سہولیات کی بحالی کے لیے وقتاً فوقتاً اپیلیں بھی کیں اور 'تنگ آمد بہ جنگ آمد' کے مصداق برسر احتجاج بھی ہوئے لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی تاہم انتظامیہ نے حالیہ دنوں وادی کے بعض سرکاری ہسپتالوں میں براڈ بینڈ سروس بحال کی ہے۔
قبل ازیں وادی میں انٹرنیٹ سروس کی بحالی کے بارے میں کئی بار افواہیں بھی گرم ہوئیں اور ارباب اقتدار نے بھی کئی بار انٹرنیٹ سہولیات کو مرحلہ وار طریقے سے بحال کرنے کے وعدے بھی کئے۔
انٹرنیٹ سہولیات کی معطلی سے جہاں تاجروں کو بے تحاشا نقصان سے دوچار ہونا پڑا وہیں شعبہ سیاحت سے جڑے لوگوں کا روز گار بھی متاثر ہوا یہاں تک کہ بیرون ریاست سفر کرنے والے مسافروں کو بھی ٹکٹ نکالنے کے لیے گوناگوں مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ وادی کشمیر میں سال 2019 میں دنیا کی طویل ترین اور ریکارڈ ساز انٹرنیٹ قدغن کا ایک نیا عالمی ریکارڈ قائم ہوا۔ ایکسز نو کے محققین کے مطابق اس سے قبل میانمار اور چین میں سیکورٹی محاصروں کے دوران سب سے طویل انٹرنیٹ قدغنیں عائد ہوئی ہیں۔