ETV Bharat / state

عالمی یوم گمشدگی: 21 برس سے بیٹی والد کی منتظر - kashmir update

بیس سالہ فرزانہ مشتاق اس وقت اپنی والدہ کے پیٹ میں تھی جب ان کے والد مشتاق احمد خان کو مبینہ طور پر سکیورٹی فورسز نے دیر رات کو ان کے گھر سے اٹھالیا۔ آج تقریباً اکیس برس بعد بھی خان کا کوئی پتہ نہیں ہے۔

عالمی یوم گمشدگی: 21 برس سے بیٹی والد کی منتظر
عالمی یوم گمشدگی: 21 برس سے بیٹی والد کی منتظر
author img

By

Published : Aug 30, 2020, 5:46 PM IST

Updated : Aug 30, 2020, 6:56 PM IST

فرزانہ کا کہنا ہے کہ وہ اکثر اپنی والدہ سے اپنے والد کے بارے میں سوال کرتی تھی تاہم جواب بس اتنا ملتا تھا کہ " بیٹا آپ کی ماں اور باپ میں دونوں ہوں۔"فرزانہ کا کہنا ہے کہ " میری والدہ نے میرے لیے اور میرے تین بھائیوں کے لیے ہر ایک چیز میسر رکھی۔ مجھے کبھی والد کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ میں اپنے گھر میں سب سے چھوٹی ہو اور شاید اپنے والد کی لاڈلی بھی ہوتی۔ میں نے انہیں کبھی نہیں دیکھا لیکن سب سے ان کے بارے میں اچھا اچھا سنا ہے۔ انکا کیا قصور تھا میں نہیں جانتی۔ وہ کہاں ہیں کس حال میں ہیں ہمیں اس بات کی بھی کوئی علم نہیں۔"

عالمی یوم گمشدگی: 21 برس سے بیٹی والد کی منتظر

ان کا مزید کہنا تھا کہ " مجھے اللہ پر بھروسہ ہے اور انشاء اللہ میرے والد واپس لوٹیں گے۔ میں انہیں سب سے پہلے گلے لگاؤں کی اور اپنے شکوہ شکایت ان سے کروں گی۔ ایک تو وہ میرے آنے سے پہلے ہی چلے گئے اور ان کے جانے کے بعد جو مشکلات ہمارے سامنے آئیں اس کے حوالے سے سوالات کی بوچھاڑ کرونگی اور انہیں جواب دینا پڑے گا۔"

فرزانہ کی والدہ رفیقہ کا کہنا ہے کہ " میرے تین بڑے بیٹوں کو اپنے والد کے بارے میں تھوڑا تھوڑا کچھ یاد ہے لیکن بیٹی کو کچھ بھی نہیں۔ یہ تو میرے پیٹ میں ہی تھی۔ میں نے کن مشکلات کا سامنا کر کے اپنے بچوں کو پالا ہے یہ میں نہیں جانتی ہوں اور میرا خدا ہی جانتا ہے۔ کچھ لوگوں نے امداد بھی کی جس سے گھر کا خرچ چلا۔ آج میرا بیٹا ایک دکان پر کام کر کے گھر کا سارا خرچہ اٹھا رہا ہے۔ میرے بچوں کی تعلیم صحیح طریقے سے نہیں ہو پائے میں کیا کر پاتی۔ "

اپنے شوہر کے بارے میں بات کرتے ہوئے رفیق کا کہنا تھا کہ " مجھے آج بھی وہ رات یاد ہے۔ ہم رنگ پورہ میں اپنے آبائی مکان میں رہتے تھے جب رات کو اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔ معلوم چلا کہ بھارتی فوج کا چھاپا ہے۔ اس رات کو میں کیسے بھول سکتی ہوں۔ آج بھی جب دروازے پر دستک ہوتی ہے تو ہمارے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ فوج آئی انہوں نے میرے شوہر کو اپنے ساتھ لے لیا۔ اس دن سے آج تک ان کا کوئی اتا پتا نہیں۔ میں ہر دروازے پر گئی ہر افسر سے ملے لیکن میرے شوہر کے بارے میں مجھے کوئی خبر نہیں ملی۔ میں نہیں جانتی کہ وہ زندہ بھی ہیں کہ نہیں۔"ان کا کہنا ہے کہ " ہر برس 30 اگست کے روز لاپتہ افراد کے متاثرین کا عالمی دن کے موقع پر ہم سرینگر کی پرتاپ پارک میں اکٹھا ہوکر احتجاج کرتے تھے۔ گزشتہ تین برسوں سے ایسا ممکن نہیں ہو پایا اور امسال تو عالمی وبا ہے تو آج بھی کچھ کرنا مشکل لگ رہا ہے۔"

گھریلو حالات کیسے رہے؟ اس سوال کے جواب میں رفیق کا کہنا تھا کہ " میرے شوہر کے لاپتہ ہونے کے بعد سسرال کی جانب سے بھی کافی مشکلات اٹھانی پڑی۔ میرے بچوں کو مجھ سے چھینا جا رہا تھا۔ ان کے لیے لڑنا پڑا۔ محلہ کمیٹی میں میرا ساتھ دیا اور آج یہاں معراج پورہ میں اپنے بچوں کے ساتھ رہتی ہوں۔ اس دوران اے پی ڈی پی کی پروینہ آہنگر نے بھی ہماری مدد کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ پیش پیش رہیں۔"

وادی کشمیر میں اس طرح کے ہزاروں خواتین ہے جن کے لخت جگر لاپتہ ہے ااسی ہی ایک خاتون ہے جن کا بیٹا آج سے 30 برس قبل لاتہ ہوا تھا اور تن سے ان کی والدہ پرونہ آنگر نے ایک تنظیم شروع کی

وہیں اے پی ڈی پی کی صدر پروینہ آہنگر کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی انہی کاموں پر صرف کر دی ہے۔ وہ نہیں چاہتی کہ جو ان لوگوں کے ساتھ ہوا وہ آنے والی نسل کے ساتھ بھی ہو۔

آہنگر کا کہنا ہے کہ " میرا بیٹا جاوید احمد آہنگر تب گیارہویں جماعت میں پڑھتا تھا جب اس کو بھارتی فوج نے اٹھا کر لے لیا۔ تاریخ تھی 18 اگست 1990۔ اس دن سے آج تک میں دیگر ماؤں اور بیویوں کے ساتھ اپنے عزیزوں کی خیر خبر کے سوالات حکمرانوں سے پوچھ رہی ہو۔ جواب کسی نے نہیں دیا کارووائی کبھی نہیں ہوئی۔ ہوگی بھی کیسے پولیس ان کی، عدالت ان کی، ہمیں انصاف کیسے ملے گا۔ ہم نے مانگی تھی ایک انڈیپنڈنٹ کمیشن کی تشکیل دی جائے وہ بھی آج تک نہیں ہوا۔ لیکن ان سب مشکلات کے باوجود ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ خدا کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں۔ مجھے یقین ہے ایک دن ہمیں انصاف ضرور ملے گا۔ "

حال ہی میں ہوئے شوپیان تصادم کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ " آپ نے دیکھا حال ہی میں شوپیان میں کیا ہوا۔ مبینہ طور پر فیک انکاؤنٹر۔ آرمی اور پولیس نے تحقیقات کی یقین دہانی کی ہے۔ لیکن آخر میں فیصلہ کیا ہوگا وہ ہم سب جانتے ہیں۔ وہی ہوگا جو پتھری بل کا ہوا، وہی ہوگا جو چھٹی سنگھ پورہ کا ہوا۔ انصاف ملنا آسان نہیں۔ لیکن خدا پر بھروسہ ہے ایک دن ملے گا ضرور۔"

ان کا مزید کہنا تھا کہ " 2002 میں ضلع بارہمولہ میں ایک نوجوان کو آغوا کیا گیا تھا، عدالت نے اس کیس کے تعلق سے ملوث افراد پر 50 ہزار روپے کا جرمانہ اور دس سال کی سزا سنائی تھی لیکن آج تک کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ یہ سزا کافی تھی۔ ترگ پورہ کے رہنے والے منظور احمد وانی کو 22 جون 2002 کو اغواء کرکے لاپتہ کردیا گیا۔ یہ سب آرمی نے سرکاری بندوق برداروں کے ساتھ مل کر کیا۔ تب سے اب تک وانی کے رشتے داروں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور انہیں ڈرایا دھمکایا گیا۔ آج سچ سامنے آیا ہے۔ کون سچا ہے اور جھوٹا یہ تو ثابت ہوگیا۔ لیکن کیا آپ کو لگتا ہے کہ یہ سزا کافی ہے؟اے پی ڈی پی کے مطابق سنہ 1989 سے اب تک 8 ہزار سے زائد افراد لاپتہ ہے۔ جس وجہ سے ان کے لواحقین مسلسل مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔

فرزانہ کا کہنا ہے کہ وہ اکثر اپنی والدہ سے اپنے والد کے بارے میں سوال کرتی تھی تاہم جواب بس اتنا ملتا تھا کہ " بیٹا آپ کی ماں اور باپ میں دونوں ہوں۔"فرزانہ کا کہنا ہے کہ " میری والدہ نے میرے لیے اور میرے تین بھائیوں کے لیے ہر ایک چیز میسر رکھی۔ مجھے کبھی والد کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ میں اپنے گھر میں سب سے چھوٹی ہو اور شاید اپنے والد کی لاڈلی بھی ہوتی۔ میں نے انہیں کبھی نہیں دیکھا لیکن سب سے ان کے بارے میں اچھا اچھا سنا ہے۔ انکا کیا قصور تھا میں نہیں جانتی۔ وہ کہاں ہیں کس حال میں ہیں ہمیں اس بات کی بھی کوئی علم نہیں۔"

عالمی یوم گمشدگی: 21 برس سے بیٹی والد کی منتظر

ان کا مزید کہنا تھا کہ " مجھے اللہ پر بھروسہ ہے اور انشاء اللہ میرے والد واپس لوٹیں گے۔ میں انہیں سب سے پہلے گلے لگاؤں کی اور اپنے شکوہ شکایت ان سے کروں گی۔ ایک تو وہ میرے آنے سے پہلے ہی چلے گئے اور ان کے جانے کے بعد جو مشکلات ہمارے سامنے آئیں اس کے حوالے سے سوالات کی بوچھاڑ کرونگی اور انہیں جواب دینا پڑے گا۔"

فرزانہ کی والدہ رفیقہ کا کہنا ہے کہ " میرے تین بڑے بیٹوں کو اپنے والد کے بارے میں تھوڑا تھوڑا کچھ یاد ہے لیکن بیٹی کو کچھ بھی نہیں۔ یہ تو میرے پیٹ میں ہی تھی۔ میں نے کن مشکلات کا سامنا کر کے اپنے بچوں کو پالا ہے یہ میں نہیں جانتی ہوں اور میرا خدا ہی جانتا ہے۔ کچھ لوگوں نے امداد بھی کی جس سے گھر کا خرچ چلا۔ آج میرا بیٹا ایک دکان پر کام کر کے گھر کا سارا خرچہ اٹھا رہا ہے۔ میرے بچوں کی تعلیم صحیح طریقے سے نہیں ہو پائے میں کیا کر پاتی۔ "

اپنے شوہر کے بارے میں بات کرتے ہوئے رفیق کا کہنا تھا کہ " مجھے آج بھی وہ رات یاد ہے۔ ہم رنگ پورہ میں اپنے آبائی مکان میں رہتے تھے جب رات کو اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔ معلوم چلا کہ بھارتی فوج کا چھاپا ہے۔ اس رات کو میں کیسے بھول سکتی ہوں۔ آج بھی جب دروازے پر دستک ہوتی ہے تو ہمارے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ فوج آئی انہوں نے میرے شوہر کو اپنے ساتھ لے لیا۔ اس دن سے آج تک ان کا کوئی اتا پتا نہیں۔ میں ہر دروازے پر گئی ہر افسر سے ملے لیکن میرے شوہر کے بارے میں مجھے کوئی خبر نہیں ملی۔ میں نہیں جانتی کہ وہ زندہ بھی ہیں کہ نہیں۔"ان کا کہنا ہے کہ " ہر برس 30 اگست کے روز لاپتہ افراد کے متاثرین کا عالمی دن کے موقع پر ہم سرینگر کی پرتاپ پارک میں اکٹھا ہوکر احتجاج کرتے تھے۔ گزشتہ تین برسوں سے ایسا ممکن نہیں ہو پایا اور امسال تو عالمی وبا ہے تو آج بھی کچھ کرنا مشکل لگ رہا ہے۔"

گھریلو حالات کیسے رہے؟ اس سوال کے جواب میں رفیق کا کہنا تھا کہ " میرے شوہر کے لاپتہ ہونے کے بعد سسرال کی جانب سے بھی کافی مشکلات اٹھانی پڑی۔ میرے بچوں کو مجھ سے چھینا جا رہا تھا۔ ان کے لیے لڑنا پڑا۔ محلہ کمیٹی میں میرا ساتھ دیا اور آج یہاں معراج پورہ میں اپنے بچوں کے ساتھ رہتی ہوں۔ اس دوران اے پی ڈی پی کی پروینہ آہنگر نے بھی ہماری مدد کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ پیش پیش رہیں۔"

وادی کشمیر میں اس طرح کے ہزاروں خواتین ہے جن کے لخت جگر لاپتہ ہے ااسی ہی ایک خاتون ہے جن کا بیٹا آج سے 30 برس قبل لاتہ ہوا تھا اور تن سے ان کی والدہ پرونہ آنگر نے ایک تنظیم شروع کی

وہیں اے پی ڈی پی کی صدر پروینہ آہنگر کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی انہی کاموں پر صرف کر دی ہے۔ وہ نہیں چاہتی کہ جو ان لوگوں کے ساتھ ہوا وہ آنے والی نسل کے ساتھ بھی ہو۔

آہنگر کا کہنا ہے کہ " میرا بیٹا جاوید احمد آہنگر تب گیارہویں جماعت میں پڑھتا تھا جب اس کو بھارتی فوج نے اٹھا کر لے لیا۔ تاریخ تھی 18 اگست 1990۔ اس دن سے آج تک میں دیگر ماؤں اور بیویوں کے ساتھ اپنے عزیزوں کی خیر خبر کے سوالات حکمرانوں سے پوچھ رہی ہو۔ جواب کسی نے نہیں دیا کارووائی کبھی نہیں ہوئی۔ ہوگی بھی کیسے پولیس ان کی، عدالت ان کی، ہمیں انصاف کیسے ملے گا۔ ہم نے مانگی تھی ایک انڈیپنڈنٹ کمیشن کی تشکیل دی جائے وہ بھی آج تک نہیں ہوا۔ لیکن ان سب مشکلات کے باوجود ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ خدا کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں۔ مجھے یقین ہے ایک دن ہمیں انصاف ضرور ملے گا۔ "

حال ہی میں ہوئے شوپیان تصادم کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ " آپ نے دیکھا حال ہی میں شوپیان میں کیا ہوا۔ مبینہ طور پر فیک انکاؤنٹر۔ آرمی اور پولیس نے تحقیقات کی یقین دہانی کی ہے۔ لیکن آخر میں فیصلہ کیا ہوگا وہ ہم سب جانتے ہیں۔ وہی ہوگا جو پتھری بل کا ہوا، وہی ہوگا جو چھٹی سنگھ پورہ کا ہوا۔ انصاف ملنا آسان نہیں۔ لیکن خدا پر بھروسہ ہے ایک دن ملے گا ضرور۔"

ان کا مزید کہنا تھا کہ " 2002 میں ضلع بارہمولہ میں ایک نوجوان کو آغوا کیا گیا تھا، عدالت نے اس کیس کے تعلق سے ملوث افراد پر 50 ہزار روپے کا جرمانہ اور دس سال کی سزا سنائی تھی لیکن آج تک کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ یہ سزا کافی تھی۔ ترگ پورہ کے رہنے والے منظور احمد وانی کو 22 جون 2002 کو اغواء کرکے لاپتہ کردیا گیا۔ یہ سب آرمی نے سرکاری بندوق برداروں کے ساتھ مل کر کیا۔ تب سے اب تک وانی کے رشتے داروں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور انہیں ڈرایا دھمکایا گیا۔ آج سچ سامنے آیا ہے۔ کون سچا ہے اور جھوٹا یہ تو ثابت ہوگیا۔ لیکن کیا آپ کو لگتا ہے کہ یہ سزا کافی ہے؟اے پی ڈی پی کے مطابق سنہ 1989 سے اب تک 8 ہزار سے زائد افراد لاپتہ ہے۔ جس وجہ سے ان کے لواحقین مسلسل مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔

Last Updated : Aug 30, 2020, 6:56 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.