عالمی سطح پر ساٹھ سال سے زائد عمر کے افراد کی تعداد میں ہر ماہ 10لاکھ کا اضافہ ہوتا ہے اور اس وقت دنیا میں 10.8فیصد سے زائد آبادی بزرگوں پر مشتمل ہے ۔
اپنے بزرگوں کے تئیں عزت و احترام اور حقوق کے تعلق سے آج کا دن جو تقاضا کرتا ہے اس ضمن میں جب ہم اپنے معاشرے کی اور نظر دوڑاتے ہیں تو سب کچھ اس کے برعکس دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے۔
والدین ساری زندگی اپنی اولاد کے سکھ کی خاطر اپنی خوشیوں کو قربان کردیتے ہیں۔ جبکہ اپنی خواہشات کا گھلا گھونٹ کو بچوں کی تمناؤں کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں آنے دیتے ۔ افسوس وہی اولاد آج کل اپنے ماں باپ کو ہی بوجھ سمجھتے ہیں ۔ جن بچوں نے والدین کے کاندھوں پر بیٹھ کر دنیا کو دیکھا ہے وہی اولاد اپبے ماں باپ کو بے سہارا کر دیتی ہے۔
آج کل تو والدین کےتئیں اولاد کی نافرمانی کی ایسی ایسی خبریں سننے کو ملتی ہیں کہ انسانیت بھی شرمسار ہو جاتی ہے۔ کہیں پرتو اولاد اپنے والدین اور بزرگوں کو سڑک پر دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کر رہے ہیں اور کہیں پر نئی نسل دنیاوی رنگینیوں میں اتنی کھو گئی ہے کہ اپنے بزرگوں کو ہی بھول بھیٹے ہیں۔
دوسری جانب حکومتی سطح پر بزرگ شہریوں کے حقوق کے تحفظ یا دیگر سہولیات کی خاطر بنائی گئی اسکیمیں عملی طور کہیں بھی نظر نہیں آرہی ہیں۔ انہیں کاغذات ، دعوؤں اور وعدوں تک محدود رکھا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عالمی یوم بزرگ پر خصوصی رپورٹ
اولڈ ایج پنشن اور دوسری مراعات کے نام پر بزرگوں سے مذاق کیا جاتا ہے۔ ہسپتالوں میں سینئر سڑیزن کے لئے طبی سہولیات ،علاج و معالجہ میں کفالت ، بسوں میں مخصوص سیٹیں اور بینکوں میں مخصوص کاؤنٹرس بزرگ شہریوں کے وہ حقوق ہیں جن کہ پاسداری کہیں بھی عمل میں نہیں لائی جارہی ہے۔
کسی بھی خطے میں بسنے والے بزرگوں کے جھریوں بھرے چہرے برسوں کی خوشیاں اور غموں کے طوفان اپنے اندر سموئے ہوئے ہوتے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ بزرگوں کی زندگی کے اتار چڑھاؤ سے لبریز تجربات و مشاہدات سے مستفید ہوکر قوموں نے اپنے مستقبل کو سنوارا ہے۔
لیکن جدید طرز زندگی گزارنے کی ہوڑ میں نوجوان نسل اپنے بزرگوں کے بہتر مشورے کو فرسودہ اور پرانے خیالات سے تعبیر کرتے ہوئے ان سنی کردیتے ہیں ۔جبکہ ہمارے آس پڑوس میں کئی سارے ایسے معمر افراد ہیں جو اپنے ہی گھروں میں پرایوں جیسی زندگی گزار رہے ہیں ۔ اپنی زندگیوں میں مگن نئی پود اپنے گھر کے بزرگوں سے بات کرنے کو ترجیح نہیں دے رہے۔ زندگی کے روزمرہ معاملات کے حوالے سے اپنے بڑوں کے معتبر مشورہ حاصل کرنا تو دور کی بات ہے۔
بزرگوں کے حقوق کی بات کرنا ان کے احترام و وقار کی اہمیت یا ان کے مسائل کو اجاگر کرنا یکم اکتوبر کے دن صرف تقریبات سمینارز یا ورکشاپس تک محدود رکھنے کا مقصد نہیں ہے بلکہ اس کا اصل مقصد بزرگ شہریوں کے تئیں اپنے روئیے پر انفرادی اور اجتماعی سطح پر محاسبہ کرنا ہے ۔وہیں سرکاری سطح پر بھی معمر افراد کے لئے وضح کئے گئے حقوق کی پاسداری عمل میں لانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔