ETV Bharat / state

لداخ میں بھارت – چین سرحد پر کشیدگی برقرار، لوگوں میں خوف و دہشت

author img

By

Published : Jun 18, 2020, 7:31 PM IST

لداخ میں حقیقی کنٹرول لائن پر بھارت اور چین کے درمیان کشیدگی بدستور برقرار ہے جبکہ میجر جنرل سطح پر جمعرات کو مسلسل تیسرے دن ہونے والی بات چیت نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو پائی ہے۔

لداخ میں بھارت – چین سرحد پر کشیدگی برقرار، لوگوں میں خوف و دہشت
لداخ میں بھارت – چین سرحد پر کشیدگی برقرار، لوگوں میں خوف و دہشت

پیر اور منگل کی درمیانی شب کو ہونے والی ہلاکت خیز جھڑپ کے باعث جنم لینے والی کشیدگی کی وجہ سے جہاں لداخ یونین ٹریٹری میں خوف ودہشت کا ماحول ہے وہیں دوسری طرف سری نگر – لیہہ قومی شاہراہ پر فوجی اور جنگی ساز و سامان والی گاڑیوں کی نقل وحمل بڑھ جانے سے بھی لوگوں میں تشویش بڑھ گئی ہے۔

تاہم دفاعی ذرائع کا کہنا ہے کہ لداخ میں جنگی ساز و سامان کو دفاع کے لئے لایا جارہا ہے جنگ کے لئے نہیں۔ بھارت مذاکرات کے ذریعے مسئلے کا حل تلاش کرنے کے حق میں ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ طرفین کے درمیان میجر جنرل سطح پر گذشتہ تین روز سے جاری بات چیت بھی فی الوقت نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو پائی ہے۔ جہاں بھارت کا مطالبہ ہے کہ چینی فوجی واپس اپنے حصے میں چلے جائیں وہیں چین گلوان وادی پر اپنا حق جتا رہا ہے۔

لداخ کے ضلع لیہہ میں لوگوں کا کہنا ہے کہ گلوان وادی میں بھارت اور چین کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے خوف ودہشت کا ماحول یہاں ہر سو چھا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ چینی فوجیوں نے جس بے دردی سے بھارتی فوجیوں پر حملہ کر کے انہیں لہو لہان کیا جس کے نتیجے میں کئی فوجی ہلاک ہوگئے اور کئی زخمی ہوگئے، وہ قابل مذمت ہے۔

لوگوں کا کہنا ہے کہ جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ دونوں ممالک کو مذاکراتی میز پر آکر مسئلہ کا حل تلاش کرنا چاہئے۔

لداخ سے ایک صحافی نے بتایا کہ لیہہ کی فضا میں ہیلی کاپٹرس اور جنگی جہاز کئی روز سے گردش کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گلوان وادی کی تازہ صورتحال کے متعلق زیادہ تفصیلات سامنے نہیں آرہی ہیں جس کی دو وجوہات ہیں۔ اول گلوان وادی اور اس کے اطراف واکناف میں فون خدمات منقطع کی گئی ہیں دوم کسی کو بھی سرحد کے نزدیک جانے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔

مذکورہ صحافی نے بتایا کہ سری نگر – لیہہ شاہراہ پر فوجی قافلوں کو لیہہ کی طرف رواں دواں دیکھا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا ان فوجی قافلوں میں شامل گاڑیاں فوجیوں اہلکارں اور جنگی ساز و سامان سے لدی ہیں۔

دریں اثنا لیہہ سے تعلق رکھنے والے کانگریس پارٹی کے سینئر لیڈر رگزن سپلبار کا ماننا ہے کہ لداخ میں چین کی من مانی بھارت کی گذشتہ ساٹھ برسوں سے چپ سادھ لینے کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم نے ٹھوس اقدام کئے ہوتے تو چین آج گلوان وادی میں آٹھ کلو میٹر اندر داخل نہیں ہوتا۔

موصوف لیڈر نے ایک خبر رساں ایجنسی کو بتایا : 'ہماری حکومت نے چپ سادھ لی ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ زمین ہڑپنے کا جو الزام ہمیں چین پر لگانا چاہئے وہ چین ہم پر لگا رہا ہے'۔

انہوں نے کہا: 'ہم بارڈر والے لوگ ہیں حقیقی کنٹرول لائن جہاں سال1962 میں تھی آج وہاں نہیں ہے۔ یہ لوگ اس کو لگاتار تبدیل کر رہے ہیں لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ ہم نے گذشتہ 60 برسوں میں کوئی سبق نہیں سیکھا'۔

رگزن سپلبار نے کہا کہ اگر ہندوستان نے ٹھوس اقدام کئے ہوتے تو چین ہمیں کمزور نہیں سمجھتا اور آٹھ کلو میٹر اندر داخل نہیں ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ ہم لداخ میں چراگاہیں کھو رہے ہیں اور کوئی بات ہی نہیں کرتا ہے کیونکہ یہاں جو بھی حکومت میں آتا ہے وہ اپنا دور اقتدار مکمل کرنے کے چکر میں ہی رہتا ہے۔

موصوف لیڈر نے کہا کہ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ چین کھبی بھی ہمارا دوست نہیں بن سکتا اور ہمیں اس پر کبھی بھروسہ نہیں کرنا چاہئے۔

ادھر گلوان وادی میں ہند – چین فواج کے درمیان کشیدگی وادی کشمیر میں گرم موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ سوشل میڈیا سے لے کر نجی ملاقاتوں تک طرفین کے درمیان کشیدگی خاص کر چینی فوج کے حملے میں بیس بھارتی فوجیوں کی ہلاکت یہاں عوام و خواص میں بات چیت کا محور بن گیا ہے۔

لوگوں کا کہنا ہے کہ چین کے متعلق ہندوستان کے اپروچ میں لچک باعث حیرانگی ہے کیونکہ جب کبھی ایسا مسئلہ دوسرے پڑوسی ملک پاکستان کے ساتھ پیش آتا ہے تو اس کے خلاف سرجیکل اسٹرائیک کرنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔

سوشل میڈیا پر کشمیری عوام کا کہنا ہے کہ چین کے خلاف ہندوستانی عوام بھی نرمی کا رویہ اختیار کرنے کو ہی ترجیح دے رہا ہے اور وہ آج چین کے خلاف فوجی کارروائی کرنے کے بجائے چینی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کا پرچار کررہے ہیں۔

واضح رہے کہ گذشتہ اتوار کو ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے جموں کی جن سمواد ریلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے حقیقی کنٹرول لائن پر بھارت اور چین کے درمیان جاری سرحدی تنازعے پر کہا تھا کہ ہم اپنے قومی وقار کے ساتھ کسی بھی صورت میں سمجھوتہ نہیں کریں گے نیز بھارت اب کمزور بھارت نہیں رہا ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ معاملے پر فوجی سطح پر بات چیت جاری ہے اور دونوں ممالک مسئلے کو بات چیت کے ذریعے سلجھانے کے حق میں ہیں۔

پیر اور منگل کی درمیانی شب کو ہونے والی ہلاکت خیز جھڑپ کے باعث جنم لینے والی کشیدگی کی وجہ سے جہاں لداخ یونین ٹریٹری میں خوف ودہشت کا ماحول ہے وہیں دوسری طرف سری نگر – لیہہ قومی شاہراہ پر فوجی اور جنگی ساز و سامان والی گاڑیوں کی نقل وحمل بڑھ جانے سے بھی لوگوں میں تشویش بڑھ گئی ہے۔

تاہم دفاعی ذرائع کا کہنا ہے کہ لداخ میں جنگی ساز و سامان کو دفاع کے لئے لایا جارہا ہے جنگ کے لئے نہیں۔ بھارت مذاکرات کے ذریعے مسئلے کا حل تلاش کرنے کے حق میں ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ طرفین کے درمیان میجر جنرل سطح پر گذشتہ تین روز سے جاری بات چیت بھی فی الوقت نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو پائی ہے۔ جہاں بھارت کا مطالبہ ہے کہ چینی فوجی واپس اپنے حصے میں چلے جائیں وہیں چین گلوان وادی پر اپنا حق جتا رہا ہے۔

لداخ کے ضلع لیہہ میں لوگوں کا کہنا ہے کہ گلوان وادی میں بھارت اور چین کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے خوف ودہشت کا ماحول یہاں ہر سو چھا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ چینی فوجیوں نے جس بے دردی سے بھارتی فوجیوں پر حملہ کر کے انہیں لہو لہان کیا جس کے نتیجے میں کئی فوجی ہلاک ہوگئے اور کئی زخمی ہوگئے، وہ قابل مذمت ہے۔

لوگوں کا کہنا ہے کہ جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ دونوں ممالک کو مذاکراتی میز پر آکر مسئلہ کا حل تلاش کرنا چاہئے۔

لداخ سے ایک صحافی نے بتایا کہ لیہہ کی فضا میں ہیلی کاپٹرس اور جنگی جہاز کئی روز سے گردش کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گلوان وادی کی تازہ صورتحال کے متعلق زیادہ تفصیلات سامنے نہیں آرہی ہیں جس کی دو وجوہات ہیں۔ اول گلوان وادی اور اس کے اطراف واکناف میں فون خدمات منقطع کی گئی ہیں دوم کسی کو بھی سرحد کے نزدیک جانے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔

مذکورہ صحافی نے بتایا کہ سری نگر – لیہہ شاہراہ پر فوجی قافلوں کو لیہہ کی طرف رواں دواں دیکھا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا ان فوجی قافلوں میں شامل گاڑیاں فوجیوں اہلکارں اور جنگی ساز و سامان سے لدی ہیں۔

دریں اثنا لیہہ سے تعلق رکھنے والے کانگریس پارٹی کے سینئر لیڈر رگزن سپلبار کا ماننا ہے کہ لداخ میں چین کی من مانی بھارت کی گذشتہ ساٹھ برسوں سے چپ سادھ لینے کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم نے ٹھوس اقدام کئے ہوتے تو چین آج گلوان وادی میں آٹھ کلو میٹر اندر داخل نہیں ہوتا۔

موصوف لیڈر نے ایک خبر رساں ایجنسی کو بتایا : 'ہماری حکومت نے چپ سادھ لی ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ زمین ہڑپنے کا جو الزام ہمیں چین پر لگانا چاہئے وہ چین ہم پر لگا رہا ہے'۔

انہوں نے کہا: 'ہم بارڈر والے لوگ ہیں حقیقی کنٹرول لائن جہاں سال1962 میں تھی آج وہاں نہیں ہے۔ یہ لوگ اس کو لگاتار تبدیل کر رہے ہیں لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ ہم نے گذشتہ 60 برسوں میں کوئی سبق نہیں سیکھا'۔

رگزن سپلبار نے کہا کہ اگر ہندوستان نے ٹھوس اقدام کئے ہوتے تو چین ہمیں کمزور نہیں سمجھتا اور آٹھ کلو میٹر اندر داخل نہیں ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ ہم لداخ میں چراگاہیں کھو رہے ہیں اور کوئی بات ہی نہیں کرتا ہے کیونکہ یہاں جو بھی حکومت میں آتا ہے وہ اپنا دور اقتدار مکمل کرنے کے چکر میں ہی رہتا ہے۔

موصوف لیڈر نے کہا کہ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ چین کھبی بھی ہمارا دوست نہیں بن سکتا اور ہمیں اس پر کبھی بھروسہ نہیں کرنا چاہئے۔

ادھر گلوان وادی میں ہند – چین فواج کے درمیان کشیدگی وادی کشمیر میں گرم موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ سوشل میڈیا سے لے کر نجی ملاقاتوں تک طرفین کے درمیان کشیدگی خاص کر چینی فوج کے حملے میں بیس بھارتی فوجیوں کی ہلاکت یہاں عوام و خواص میں بات چیت کا محور بن گیا ہے۔

لوگوں کا کہنا ہے کہ چین کے متعلق ہندوستان کے اپروچ میں لچک باعث حیرانگی ہے کیونکہ جب کبھی ایسا مسئلہ دوسرے پڑوسی ملک پاکستان کے ساتھ پیش آتا ہے تو اس کے خلاف سرجیکل اسٹرائیک کرنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔

سوشل میڈیا پر کشمیری عوام کا کہنا ہے کہ چین کے خلاف ہندوستانی عوام بھی نرمی کا رویہ اختیار کرنے کو ہی ترجیح دے رہا ہے اور وہ آج چین کے خلاف فوجی کارروائی کرنے کے بجائے چینی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کا پرچار کررہے ہیں۔

واضح رہے کہ گذشتہ اتوار کو ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے جموں کی جن سمواد ریلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے حقیقی کنٹرول لائن پر بھارت اور چین کے درمیان جاری سرحدی تنازعے پر کہا تھا کہ ہم اپنے قومی وقار کے ساتھ کسی بھی صورت میں سمجھوتہ نہیں کریں گے نیز بھارت اب کمزور بھارت نہیں رہا ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ معاملے پر فوجی سطح پر بات چیت جاری ہے اور دونوں ممالک مسئلے کو بات چیت کے ذریعے سلجھانے کے حق میں ہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.