ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے سرینگر میونسپل کارپوریشن کے کمشنر خورشید صنائی کا کہنا ہے کہ ’’ہمارا اینٹی - پالیتھین عملہ مسلسل عوام کو پولیتھین کے مضر اثرات کے بارے میں اخبارات، اشتہارات، پوسٹرس اور ہورڈنگس کے ذریعے آگاہ کرتا رہتا ہے۔ پالیتھین ایک زہر ہے جس کا استعمال اب قابل برداشت نہیں۔‘‘
پالیتھین کے خلاف کارروائی کی تفصیلات فراہم کرتے ہوئے خورشید صنائی نے کہا کہ ’’گزشتہ تین مہینوں میں 30 سے 40 کوائنٹل پالیتھین ضبط کیا گیا۔ اس کے علاوہ پالیتھین کے ڈسپوزل کے لیے محکمہ آر اینڈ بی کے ساتھ تعاون کیا ہے جو پالیتھین کو تارکول میں ملا کر سڑکوں کی تعمیر و مرمت میں استعمال کریں گے۔‘‘
جموں و کشمیر میں پابندی کے باوجود پالیتھین کے بڑھتے استعمال پر صنائی کا کہنا ہے کہ ’’ہم نے پالیتھین کا استعمال کرنے والے دکانداروں، ہوٹل مالکان، چھاپڑی فروشوں وغیرہ سے لاکھوں روپے بطور جرمانہ وصول کیا ہے۔ کیونکہ پالیتھین کا متبادل بازار میں دستیاب ہے۔‘‘
سالِڈ ویسٹ منیجمنٹ (Solid Waste Management) کے تعلق سے اُن کا کہنا تھا کہ ’’سرینگر شہر کے 240000 گھروں سے جو کوڑا نکلتا ہے اس میں سے 20 سے30 فیصد تک سورس سیگریگیشن (Source Segregation) کیا جاتا ہے یعنی گھر سے کوڑا جمع کرتے وقت ہی الگ الگ کیا جاتا ہے۔ جبکہ باقی 70 سے 80 فیصد اچھن میں واقع ڈمپنگ گراؤنڈ لے جایا جاتا ہے۔ روزانہ سرینگر سے 350 سے 450 میٹرک ٹن کوڑا کرکٹ نکلتا ہے۔‘‘
وہیں دوسری جانب مقامی باشندگان نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ ’’وادی میں پالیتھین تیار نہیں ہوتا پھر یہ کشمیر کہاں سے آتا ہے؟ اگر دکاندار ہمیں پالیتھین میں سامان دینا بند کر دیں تو ہم کاٹن یا جوٹ کے تھیلے استعمال کرنے کے لیے مجبور ہو جائیں گے۔‘‘
اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’’انتظامیہ کے پالیتھین مخالف مہم کے دعوے بے بنیاد ہیں۔ ہمیں کبھی ایسی پروگراموں سے روشناس ہونے کا موقع نہیں ملا۔‘‘