کشمیر میں موسم بہار کے شروع ہونے کے فوراً بعد زرعی سرگرمیاں شروع ہوتی ہیں اور دیہی علاقوں میں زندگی بسر کرنے والے اکثر لوگ اس دوران کھیت کھلیانوں میں زراعت و باغبانی کے لیے متحرک ہوجاتے ہیں کیونکہ یہ ایام ان کی نظر میں کافی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور سال بر کا دارومدار ان ہی ایام پہ ہوتا ہے لیکن رواں سال کورونا وائرس کے سبب جاری لاک ڈاؤن کی وجہ سے زرعی سرگرمیاں بھی کافی حد تک متاثر ہورہی ہیں -
ای ٹی وی بھارت نے شمالی کشمیر کے بانڈی پورہ میں مختلف علاقوں میں کسانوں سے اس سلسلے میں بات کی اور شعبہ زراعت پر لاک ڈاؤن کی وجہ سے کس طرح کے اثرات مرتب ہورہے ہیں کسانوں سے جاننے کی کوشش کی-
کسانوں کے مطابق اگرچہ سرکار نے زرعی کام کاج کو شروع کرنے کے لیے ہدایات دی ہیں تاہم کویڈ 19 سے متاثرہ کئ حساس علاقوں میں ابھی کسان باہر نکلنے سے ہچکچا رہے ہیں اور گھروں کے اندر ہی بیٹھنے کو ترجیح دے رہے ہیں، جس طرح ہر سال ان ایام میں کسانوں سے کھت کھلیان برے پڑے ہوتے تھے اس سال صورتحال بالکل اس کے برعکس دیکھنے کو مل رہی ہیں-
کھیتوں میں اکا دکا ہی کسان باہر کھیتوں میں نظر آرہے ہیں - ریڈ زون اور دیگر بفر زون میں شامل علاقوں میں صورتحال اس سے بھی ابتر دکھائی دے رہی ہیں -
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے متعدد کسانوں کا کہنا تھا کہ سرکاری احکامات کو چھوڑ کر وہ خود کورونا وائرس کے بڑھتے پھیلاؤ سے کافی پریشانِ حال ہیں اور اس کے خدشات سے وہ ذہنی دباؤ کے شکار ہورہے ہیں کیونکہ وہ مستقبل کے حوالے سے کافی فکر مند ہیں-
ان کا کہنا تھا کہ چونکہ زرعی کام میں عموماً گروپ یا گروہ کی صورت میں کام کرنا پڑتا ہیں تو اس میں وہ کس طرح سے سماجی فاصلوں کو قائم رکھ سکتے ہیں-
متعدد کسانوں کا ماننا ہے کہ اس سال غیر مقامی مزدوروں کو کام پہ لگانا بھی مشکلات پیدا کرسکتا ہیں اور کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں رکاوٹیں پیدا کرسکتا ہے کیونکہ شالی لگانے کا کام ہو یا دیگر زرعی کام ہو اس میں مل جل کر کام کرنا پڑتا ہے-
ادھر دیہی علاقوں میں اکثر لوگوں کی روزی و روٹی اور آمدنی کا تعلق زراعت پر ہی منحصر ہوتا ہے تو کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کہیں نہ کہیں اس شعبہ سے تعلق رکھنے والے کسانوں کے لیے بھی پریشانیوں سے خالی نہیں ہے-
کہیں کسانوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ وہ پر امید ہیں کہ اس وباء کا خاتمہ جلد ہوگا اور وہ دعا گو ہیں کہ وہ دن قریب ہوں گے جب زندگی واپس معمول کی پٹری پر لوٹ آئے گی۔