ETV Bharat / state

دفعہ 370 کی منسوخی کا ایک سال، کشمیر میں حالات کتنے بدلے؟

بھارتیہ جنتا پارٹی نے دفعہ 370 کو جموں و کشمیر میں عسکریت پسندی اور علیحدگی پسندی کو فروغ دینے کے لیے دہائیوں سے ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔

دفعہ 370 کی منسوخی کا ایک سال، کشمیر میں حالات کتنے بدلے؟
دفعہ 370 کی منسوخی کا ایک سال، کشمیر میں حالات کتنے بدلے؟
author img

By

Published : Aug 5, 2020, 6:57 AM IST

Updated : Aug 5, 2020, 7:05 AM IST

گزشتہ برس پانچ اگست کو جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت عطا کرنے والی آئین ہند کی دفعہ 370 اور 35 اے کی منسوخی کے بعد وزیر داخلہ امت شاہ سمیت دیگر وزراء نے دعویٰ کیا تھا کہ جموں و کشمیر میں عسکریت پسندی اور علیحدگی پسندی کا خاتمہ ہوگا۔

دفعہ 370 کی منسوخی کا ایک سال، کشمیر میں حالات کتنے بدلے؟

امت شاہ نے کہا تھا کہ 'ہم نے دفعہ 370 کو منسوخ کر کے پاکستان کی طرف سے جموں و کشمیر میں جاری پراکسی وار اور شدت پسندی کے خلاف فیصلہ کن جنگ کا آغاز کیا ہے۔ اس فیصلے سے کشمیر میں ہمیشہ کے لیے امن بحال ہوگا۔'

لیکن ایک برس کے بعد کشمیر کی صورتحال پانچ اگست سے قبل کے حالات سے ابتر ہیں۔ اگرچہ علیحدگی پسند خاموش اور پاپند سلاسل ہیں لیکن جموں و کشمیر میں تشدد کے واقعات میں کمی واقع نہیں ہوئی ہیں۔ ایک سال کے دوران غیر یقینی صورتحال اور تذبذب کا ماحول بر قرار ہے۔ ان ایام میں زندگی کا ہر شعبہ بندشوں کی وجہ سے بری طرح سے متاثر رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

گزشتہ برس کی یاد ہوئی پھر سے تازہ

جموں و کشمیر کے ہند نواز سیاسی رہنماؤں کے علاوہ حکومت نے تقریباً 5161 افراد کو گرفتار کیا تھا۔ ان گرفتاریوں کی تفصیل دیتے ہوئی وزارت داخلہ کے جونیئر منسٹر جی کے ریڈی نے مارچ میں پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ 'محروس لوگوں میں سنگ باز، شر پسندعناصر، عسکریت پسندوں کے حامی، علیحدگی پسند اور مین اسٹریم سیاسی اراکین شامل ہیں۔ جموں و کشمیر کے باہر الگ الگ ریاستوں میں تقریباً 220 کشمیری افراد جیلوں میں قید ہیں۔ ان تمام قیدیوں کی رہائی کے متعلق حکومت ہنوز خاموش ہی ہے۔

اگرچہ امت شاہ نے کہا تھا کہ 'دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد تشدد میں کمی واقع ہوئی ہے۔ تاہم حقائق اس دعوے کے برعکس ہیں۔'

پانچ اگست کے بعد ابھی تک تشدد کے 112 واقعات پیش آئے ہیں جن میں عسکریت پسندوں کے علاوہ سکیورٹی فورسز اور عام شہریوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

پولیس کے مطابق 5 اگست کے بعد کشمیر کے شمال و جنوب میں 178 عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔

ان تصادموں اور دیگر حملوں میں 39 سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے ہیں جبکہ 36 عام شہریوں کی بھی موت ہوئی ہیں۔

رواں سال میں سکیورٹی فورسز کی عسکریت مخالف کارروائیوں میں سرعت لائی گئیں جس کا اعتراف پولیس کے افسران بھی کر رہے ہیں اور تشدد کے واقعات بھی اس کی عکاسی کر رہے ہیں۔

وادی میں سیاسی و عوامی رائے ہے کہ ان حالات میں تشدد اور زیادتی سے امن بحال نہیں ہوگا۔ ان کا ماننا ہے کہ مرکزی حکومت کشمیر کو سیاسی زاویے سے دیکھے نہ کہ سکیورٹی کے۔

صحافی ظہور گلزار نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ 'عسکریت پسندوں کے خلاف اگرچہ کارروائیاں تیز کی گئی ہیں لیکن کشمیر کے حالات جوں کے توں ہیں۔'

پی ڈی پی رہنما رؤف ڈار نے بتایا کہ 'کشمیر میں زور زبردستی اور طاقت کا استعمال کرنے سے حالات ٹھیک نہیں ہوں گے بلکہ مرکزی حکومت کو بات چیت کے ذریعے اس مسئلے کا حل نکالنا چاہیے جس سے پورے جنوبی ایشیا میں امن و سلامتی قائم رہے گی۔'

گزشتہ برس پانچ اگست کو جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت عطا کرنے والی آئین ہند کی دفعہ 370 اور 35 اے کی منسوخی کے بعد وزیر داخلہ امت شاہ سمیت دیگر وزراء نے دعویٰ کیا تھا کہ جموں و کشمیر میں عسکریت پسندی اور علیحدگی پسندی کا خاتمہ ہوگا۔

دفعہ 370 کی منسوخی کا ایک سال، کشمیر میں حالات کتنے بدلے؟

امت شاہ نے کہا تھا کہ 'ہم نے دفعہ 370 کو منسوخ کر کے پاکستان کی طرف سے جموں و کشمیر میں جاری پراکسی وار اور شدت پسندی کے خلاف فیصلہ کن جنگ کا آغاز کیا ہے۔ اس فیصلے سے کشمیر میں ہمیشہ کے لیے امن بحال ہوگا۔'

لیکن ایک برس کے بعد کشمیر کی صورتحال پانچ اگست سے قبل کے حالات سے ابتر ہیں۔ اگرچہ علیحدگی پسند خاموش اور پاپند سلاسل ہیں لیکن جموں و کشمیر میں تشدد کے واقعات میں کمی واقع نہیں ہوئی ہیں۔ ایک سال کے دوران غیر یقینی صورتحال اور تذبذب کا ماحول بر قرار ہے۔ ان ایام میں زندگی کا ہر شعبہ بندشوں کی وجہ سے بری طرح سے متاثر رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

گزشتہ برس کی یاد ہوئی پھر سے تازہ

جموں و کشمیر کے ہند نواز سیاسی رہنماؤں کے علاوہ حکومت نے تقریباً 5161 افراد کو گرفتار کیا تھا۔ ان گرفتاریوں کی تفصیل دیتے ہوئی وزارت داخلہ کے جونیئر منسٹر جی کے ریڈی نے مارچ میں پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ 'محروس لوگوں میں سنگ باز، شر پسندعناصر، عسکریت پسندوں کے حامی، علیحدگی پسند اور مین اسٹریم سیاسی اراکین شامل ہیں۔ جموں و کشمیر کے باہر الگ الگ ریاستوں میں تقریباً 220 کشمیری افراد جیلوں میں قید ہیں۔ ان تمام قیدیوں کی رہائی کے متعلق حکومت ہنوز خاموش ہی ہے۔

اگرچہ امت شاہ نے کہا تھا کہ 'دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد تشدد میں کمی واقع ہوئی ہے۔ تاہم حقائق اس دعوے کے برعکس ہیں۔'

پانچ اگست کے بعد ابھی تک تشدد کے 112 واقعات پیش آئے ہیں جن میں عسکریت پسندوں کے علاوہ سکیورٹی فورسز اور عام شہریوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

پولیس کے مطابق 5 اگست کے بعد کشمیر کے شمال و جنوب میں 178 عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔

ان تصادموں اور دیگر حملوں میں 39 سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے ہیں جبکہ 36 عام شہریوں کی بھی موت ہوئی ہیں۔

رواں سال میں سکیورٹی فورسز کی عسکریت مخالف کارروائیوں میں سرعت لائی گئیں جس کا اعتراف پولیس کے افسران بھی کر رہے ہیں اور تشدد کے واقعات بھی اس کی عکاسی کر رہے ہیں۔

وادی میں سیاسی و عوامی رائے ہے کہ ان حالات میں تشدد اور زیادتی سے امن بحال نہیں ہوگا۔ ان کا ماننا ہے کہ مرکزی حکومت کشمیر کو سیاسی زاویے سے دیکھے نہ کہ سکیورٹی کے۔

صحافی ظہور گلزار نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ 'عسکریت پسندوں کے خلاف اگرچہ کارروائیاں تیز کی گئی ہیں لیکن کشمیر کے حالات جوں کے توں ہیں۔'

پی ڈی پی رہنما رؤف ڈار نے بتایا کہ 'کشمیر میں زور زبردستی اور طاقت کا استعمال کرنے سے حالات ٹھیک نہیں ہوں گے بلکہ مرکزی حکومت کو بات چیت کے ذریعے اس مسئلے کا حل نکالنا چاہیے جس سے پورے جنوبی ایشیا میں امن و سلامتی قائم رہے گی۔'

Last Updated : Aug 5, 2020, 7:05 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.